top of page

کیا محرم صرف رونے کیلئے تھا؟

Writer's picture: Anayat BukhariAnayat Bukhari

عنایت بخاری

کیا محرم صرف رونے کیلئے تھا؟؟؟

ماہ محرم قمری/ ہجری سال کا پہلا مہینہ اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:


إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ - 9:36توبۃ

"بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے ہاں بارہ ہے اور یہ اس دن سے ہے جب سے اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت اور ادب کے ہیں یہی سیدھا دین ہے لہذاتم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ اور لڑو مشرکوں سے مکمل طور پر جیسا کہ وہ لڑتے ہیں تم سے مکلمل طور پر۔ اور جان لو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔ " توبۃ 9:36


اس سے معلوم ہوا کہ ابتداء آفرینش سے ہی بارہ مہینے کا سال اور چار ماہ حرمت والے تھے جن میں سے ایک محرم بھی تھا ۔ اسکی تفصیل درج ذیل حدیث میں ملتی ہے:


"زمانہ اپنی اسی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے کہ جس پر وہ اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی۔ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔" (بخاری:کتاب التفسیر، سورة التوبہ ؛۴۶۶۲/ مسلم: کتاب القسامہ، باب تغلیظ تحریم الدماء ؛ ۱۶۷۹)


درج بالا حدیث میں جاہلیت کے زمانہ کے اس طریقے کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کے اندر سورۃ توبۃ کی آیت 9:37 میں نسی کی اصطلاح کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔ حرمت والے مہینوں میں لڑائی ترک کرنے کا اصول رائج تھا تاکہ لوگ حج اور عمرہ کے لئے بے خوف و خطر سفر کر سکیں۔ لیکن جا ہلیت کے دور میں نسی کا طریقہ رائج کیا گیا تھا تا کہ حرمت والے ماہ میں لڑائی کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔


ابتداء اسلام میں عاشورہ کا روزہ:

شروع اسلام میں نبیﷺ خود بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو بھی اسکا حکم دیتے۔ جب ہجرت کے دوسرے سال رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو عاشورہ کے روزہ کو نفلی حیثیت سے رکھا جانے لگا۔ ملاحظہ کیجئے درج ذیل حدیث؛


عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:

(مارآیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتحری صیام یوم فضلہ علی غیرہ الا ہذا الیوم یوم عاشوراء و ہذا الشہر یعنی رمضان )

"حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کسی دن کو دوسرے دنوں پر فوقیت دیتے ہوئے اسکے روزے کا قصد کرتے ہوں سوائے یوم عاشورہ کے اور سوائے ماہ رمضان کے۔"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بخاری 2006


یہود اور عاشورہ:

ایک اور حدیث میں یہود کے عاشورہ کا روزہ رکھنے کی وجہ بیان ہوئی ہے۔


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں آپ نے ان سے پوچھا تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو توانہوں نے کہا: یہ ایک عظیم دن ہے اس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کونجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فنحن حق وولی بموسی منکم تب تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت ہم حضرت موسی علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔

مشکؤۃ المصابیح ص 180) ) (بخاری ٢٠٠٤ مسلم ١١٣٠)


عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت:

درج ذیل حدیث میں عاشورہ کے دن روزہ رکھنے والے کیلئےرسول خدا ﷺ نے گزشتہ سال کے گناہ معاف ہونے کی خوشخبری سنائی ہے۔


"حضرت ابوقتادة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے کا سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؛ :یکفر السنة الماضیہ۔

مسلم ( ١١٦٢)


درج ذیل حدیث میں محرم میں روزے رکھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے؛


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(افضل الصیام بعد رمضان شہر اللہ المحرم وافضل الصلاة بعد الفریضة صلاةاللیل )

"رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں جو کہ اللہ کا مہینہ ہے اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔"

( مسلم کتاب الصوم باب فضل صوم المحرم : ١١٣٦)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ

"قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔"

(بخاری: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشورا ؛۲۰۰۳/ مسلم: کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء ؛۱۱۲۵)


حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں۔ (یعنی ان کی مراد یہ تھی کہ آپ تو ہمیں یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا حکم دیتے ہیں اور یوم عاشوراء کے معاملہ میں تو ان کی موافقت ہورہی ہے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "فاذا کان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع" آئندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں تاریخ کو روزہ رکھیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلا سال آنے سے پہلے اللہ کے رسول انتقال فرما گئے۔" (مسلم؛۱۱۳۴)


مسلم کی ایک روایت کے لفظ یہ ہیں کہ "لئن بقيت إلی قابل لأصومن التاسع"

"اگر آئندہ سال میں زندہ رہا تو ضرور نو کا روزہ رکھوں گا۔" (مسلم: ایضاً)

علماء کی اکثریت کی رائے میں اس سے مراد 9 اور 10 محرم دونوں کا روزہ رکھنا مراد ہے۔


رزق میں فراخی:

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ أوْسَعَ عَلٰی عِیَالِہ وَأہْلِہ یَوْمَ عَاشُوْرَاءَ أوْسَعَ اللّٰہُ عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَتِہ․ (رواہ البیہقی، الترغیب والترہیب ۲/۱۱۵)

"جو شخص عاشورہ کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے"


یوم عاشورہ یعنی دس محرم کے حوالے سے بہت سی باتیں مشہور ہیں لیکن انکا کوئی مستند حوالہ نہیں۔ مثلاً

یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول کی۔

یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ادریسؑ کو بلند درجات عطا فرمائے۔

یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو آتش نمرود سے نجات دی۔

یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت نوحؑ کو کشتی پر سے اتارا۔

یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے حضرت موسٰیؑ پر تورات نازل کی

یہی وہ دن ہے جس میں اللہ نے اسمٰعیلؑ کو ذبح کرنے کی بجائے دنبے کا فدیہ دیا تھا۔

اس دن اللہ نے حضرت یوسفؑ کو جیل سے چھٹکارا دلایا تھا۔

اسی دن اللہ نے حضرت یعقوبؑ کو ان کی قوتِ بینائی واپس کی تھی۔

اس دن اللہ نے حضرت ایوبؑ سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور کی تھیں۔

اسی دن اللہ نے حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا تھا۔

اسی دن اللہ نے دریا کو چیر کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ بنایا تھا۔۔وغیرہ


خلاصہ:

ماہ محرم کی برکتیں سمیٹنے کی بجائے اسے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوگ منانے کیلئے مخصوص کر دینا اللہ کی دی ہوئی نعمت کو مسترد کرنے اور دور جاہلیت میں نسی کے طریقہ کو اختیار کئے جانے کے برابر ہے۔ بلا شبہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماہ محرم میں شہادت عظیم سانحات ہیں لیکن یہ محرم کی عظمت کو کم نہیں کتے بلکہ بڑھاتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین

34 views0 comments

Recent Posts

See All

Comments


© 2019 by Anayat Bukhari

bottom of page