top of page

چاند گردی

Writer's picture: Anayat BukhariAnayat Bukhari

چاند گردی

رمضان ہو یا عید؛ وطن عزیز پاکستان میں خصوصا ہر دینی موقع کا آغاز نا اتفاقی سے شروع ہوتا ہے اور الزامات و انتشار پہ ختم ہوتا ہے۔یہ ماحول پاکستانی عوام کے لئے نہ صرف تکلیف کا باعث ہے بلکہ قومی یکجہتی پر کاری ضرب بھی ہے۔


اس مرتبہ بھی حسب دستور یہی ہوا اور شاید آئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ اب کی بار ذرا ترقی و اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔ وہ یہ کہ حکومتی وزیر نے ایک آئینی ادارے کی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے اس پر اخراجات کو خزانے پر بوجھ قرار دیا ہے۔حتیٰ کہ اس صورت حال کا تمام تر ذمہ دار پاکستان رؤیت ہلال کمیٹی کو قرار دے دیا ہے۔ زیر نظرمضمون کا مقصد حقائق کا جائزہ لینا ہے تاکہ پتہ چلے کہ اس چاند گردی کا ذمہ دار کون ہے۔


1973 ء کے آئین میں جہا ں پاکستانی قوانین کو اسلام کے مطابق بنانے کا وعدہ کیا گیا ہے وہیں رؤیت ہلال کمیٹی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہجری تاریخوں کے تعین کے لئے ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ گویا کہ یہ ایک قومی ادارہ ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسا کہ عدالتیں ہیں، اسمبلیا ں ہیں اور مسلح افواج ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ حکومت دوسرے اداروں کی طرح ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے کی پابند ہے۔

1973ء میں ہلال کمیٹی کے قیام سے لے کر آج تک صرف ایک دفعہ ایسا ہو ا کہ حکومت نے کمیٹی کے فیصلہ پر عمل کرایا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ تب ایک دن قبل عیدمنانے والوں کو روزہ خوری کےالزام پر گرفتار کیا گیا اور حکومتی رٹ ثابت کی گئی۔


اسکے علاوہ کسی بھی دور میں ہلال کمیٹی کو مولوی اور دور بین تماشہ سے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ ہلال کمیٹی کی انتظامی ترکیب کے مطابق اس کمیٹی میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کے علاوہ موسمیات، فلکیات اور سپارکو کے نمائیندے بھی ہوتے ہیں جو کہ تکنیکی معاونت کرتے ہیں۔ علماء کا کام چاند دیکھنا نہیں ہوتا بلکہ موصولہ شہادتوں کی شرعی حیثیت کا جائزہ لے کر انہیں تسلیم یا مسترد کرنا ہوتا ہے۔ ہلال کمیٹی کی اب تک کی ظاہری ناکامیوں کے باوجود اس انتظام کے بہترین ہونے پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ:


1- ہلال کمیٹی کے اجلاس پر ہونے والا خرچہ چند مولوی نہیں کھاتےبلکہ تمام شمولیت کرنے والے ادارے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔

2- کمیٹی کا چئیرمین منیب الرحمن ہو یا پوپلزئی اس کے فیصلوں کا دردناک انجام ہوتا رہیگا۔ جب تک حکومت اس آئینی ادارے کو تحفظ نہیں دیتی۔

3- رمضان اور عید کے چاند پر اختلاف دراصل حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے ہوتا ہے جو ہلال کمیٹی کے فیصلہ پر عمل کرانے میں ناکام رہتی ہیں۔

4- اگر ممبران اسمبلی اپنے لئے تحقیق استحقاق پیش کرسکتے ہیں، عدالت توہین عدالت پر سزا دے سکتی ہے، عسکری ادارے کے خلاف بات کرنا جرم ہو سکتا ہے تو رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کو درخوراعتناء نہ سمجھتے ہوئے ہر کسی کو من مانی کی کھلی اجازت دے دینا کیسے درست ہو سکتا ہے؟

5- کوئی بھی حکومت اس معاملہ کو سلجھانے کی کوشش اس لئے نہیں کرتی کہ یہ حکومت کی نااہلی کے لئے ڈھال کا کام کرتا ہے اور تمام تنقید کا رخ ہلال کمیٹی کی طرف ہو جاتا ہے۔

حل؟

1- ہلال کمیٹی کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے باقی اداروں کی طرح کام کرنے کی آزادی دی جائے۔

2- ہلال کمیٹی کے فیصلہ پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ دار حکومت ہے اسے یہ ذمہ داری پوری کرنا چاہئے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر پوپلزئی کو چئیرمین بنا دیا جائے جو حکومت سے زیادہ طاقتور ہے۔

3- ہلال کمیٹی کا چئیرمین ہر سال صوبہ وار تبدیل کیا جائے۔

4- اگر حکومت انتہائی نا اہل ہے تو پھر آئینی طور پر ہلال کمیٹی کا جنازہ پڑھا دیا جائے اور سعودی عرب کے کیلینڈر کے مطابق رمضان اور عید منائے جائیں۔ ویسے بھی حج انہی کے کیلینڈر کے مطابق کیا جاتا ہے۔

5- بہرحال اس چاند گردی کا سلسلہ بند ہونا چاہئے جس نے اسلامیان پاکستان کے مذہبی مواقع کو کرکرا کر رکھا ہے۔

16 views0 comments

Recent Posts

See All

Comments


© 2019 by Anayat Bukhari

bottom of page