سمندر میں کروڑوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی تیل نہ نکلنے کی خبر نے ہر پاکستانی کو دکھی کر دیا ہے۔ یقینا یہ اچھی خبر نہیں لیکن کیا تیل ہی پاکستان کا آخری سہارا ہے؟
عقلمند وہ ہوتا ہے جو موجود وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرے۔ ہمارے حکمران قرضے لینے کو بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ ہر نیا آنے والا پچھلوں کو کوسنے دے کر خود کو بری الزمہ سمجھتا ہے اور اسی طرح 72 برس گزر چکے۔ ہر پاکستانی کی آنے والی نسلیں بھی مقروض ہو چکی ہیں۔ قرض اتارنے کیلئے قرض لینا ۔۔۔۔۔۔۔۔اسی درجہ کی برائی ہے جتنی قرض لینے کی۔
خود کو زرعی ملک قرار دینے والا پاکستان اسی شعبہ پر توجہ دینا شروع کر دے تو چند سالوں میں کایا پلٹ سکتی ہے۔ دنیا چھتوں کو بھی زرعی پیداوار کیلئے استعمال کر رہی ہے اور ہماری ہموار زمین بھی کالونیوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔
ذراعت کو سائینسی بنیادوں پر قومی تحریک بنانے کی بات ہم کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ آج پھر بتاتے چلیں کہ یہ ایسا شعہ ہے جو:
- خوراک کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔
- برآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
- بے روزگاری پر قابو پا سکتا ہے۔
- کم لاگت میں زیادہ منافع دے سکتا ہے،
- انڈسٹری کو مضبوط بنادوں پر استوار کر سکتا ہے۔
- عوام اور حکومت دونوں کو خوشحال کر سکتا ہے۔
- ملکی قرضے تیزرفتاری سے اتار سکتا ہے۔
- ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کر سکتا ہے۔
ایک بار فیصلہ کر لیں اور پھر اللہ پر توکل کر کے اس پر جم کر عمل پیرا ہو جائیں۔ روذانہ نئی پالیسیاں بنانے کی بجائے اس ایک پالیسی کو جاری رکھیں اور دیکھیں کہ اللہ کریم کس طرح مدد کرتا ہے۔
Comments