top of page

!پڑوس سے پڑوس تک۔۔۔۔

Writer's picture: Anayat BukhariAnayat Bukhari

ہم اپنی حالت خود کیوں نہیں بدلتے؟

پڑوس سے پڑوس تک۔۔۔۔۔۔!


آبادی میں اضافے کے ساتھ گھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے چلے جا رہے ہیں۔ بھلے وقتوں کے ایک گھر کو تقسیم کر کے کئی گھر بنائے جانے لگے ہیں۔ زمین کی قیمت میں ہوشربا اضافہ کے نتیجہ میں کئی منزلہ عمارات تعمیر کی جانے لگی ہیں۔ سڑکیں تنگ گلیوں کی شکل اختیار کرنے لگی ہیں۔ ایسے میں کچرا بھری ابلتی نالیاں اور ہر طرف بکھرے ہوۓ اڑتے شاپنگ بیگ ہماری بے حسی اور انانیت پسندی کا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔ اسی پس منظر کے طفیل ہمارے ہاں بیماریوں کی کمی نہیں اور ہسپتال اپنی استعداد سے زیادہ مریضوں کو رکھنے پر مجبور ہیں۔ یہی وہ ماحول ہے جس کے سبب لڑائی جھگڑوں کی کثرت نے عدالتوں کو مفلوج کر رکھا ہے اورمقدمات کی بے تحاشہ تعداد انصاف میں تاخیر کا موجب بن چکی ہے۔ کل تو ایک خبر پڑھ کر دل ہی دہل گیا۔۔۔۔۔ جی ہاں! اب پڑوسیوں سے بچوں کی زندگی بھی محفوظ نہیں رہی۔

ہمارے پیارے نبی ‍ۜﷺ نے ایک مرتبہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پڑوسیوں کے حقوق کی تاکید اس شدت سے کی جا رہی ہے، کہیں انہیں وراثت میں حصہ دار نہ قرار دے دیا جائے۔ لیکن شاید آج سب سے زیادہ کوتاہی پڑوسیوں کے حقوق میں ہی کی جاتی ہے۔ سال ہا سال ان سے ملاقات نہین ہوتی۔ شادی بیاہ میں کئی کئی راتیں بلند آواز موسیقی سے انکی نیند حرام کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا۔ گھر کا کچرا نکال کر گلی میں ڈال دینا یا نالی میں پھینک دینا صفائی کہلاتا ہے۔ چھت پر گیند کھیلنا یا پتنگ بازی کرنا معمول ہے اور جب یہ پڑوسی کے گھر چلا جائے تو اسی وقت گھنٹی بجا کر ان سے مانگنا اپنا حق سمجھا جانے لگا ہے۔ گاڑی گلی میں کھڑی کرکے راستہ بند کرنا بڑائی سمجھی جانے لگی ہے۔ کوئی ان زیادتیوں کی شکایت کر دے تو لڑائی تیار۔


اگرچہ ان معاملات کو درست سمت دینا حکومت کی بھی زمہ داری ہے کہ ایسی قانون سازی کرے کہ اس پر عمل کر کے ہر ایک اپنے پڑوسی کے شر سے محفوظ رہے۔ آنسانی حقوق کی وزیر صاحبہ اگر ایک یہی کام کر دیں تو انکا احسان اس ملک پر سدا رہیگا۔ لیکن پڑوسیوں کو بھی چاہئے کہ جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں اس ماحول کو اس قابل بنائیں کہ اسے مہذب تسلیم کر لیا جائے۔ ہر گلی اور محلہ کی سطح پر ایک کمیٹی بنا کر ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ماحول کو خوشگوار بنا نے کے لئے انا اور کبر کے خول سے باہر نکلنا ہو گا۔ ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا ہو گی اور اچھائی میں تعاون کرنا ہو گا۔ یہ ایسی تبدیلی ہے جو فوری فائدہ دیتی ہے اور اس پر خرچ بھی کچھ نہیں ہوتا۔ ہسپتال اور تھانہ کچہری سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔

ایک دفعہ ذاتی پڑوس ٹھیک ہو جائے تو پھر قومی پڑوس ٹھیک کرنا بھی چنداں مشکل نہیں۔ یقین جانئے! پہل کرنے والے ہی لیڈر ہوتے ہیں اور ذیادہ ثواب کے حقدار بھی۔

17 views0 comments

Recent Posts

See All

گمان

https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=2277218209001739&id=568666729856904&notif_id=1555457837610617&notif_t=page_post_reaction

Comentários


© 2019 by Anayat Bukhari

bottom of page