پانی کی متوقع نایابی کے ابتدائ آثار ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی حمایت اور مخالفت پر پہلے سے تقسیم قوم مزید انتشار کا شکار ہو گئ ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی از خود نوٹس لے لیا ہے لیکن تازہ ترین خبروں کے مطابق پنجاب اور کراچی میں پانی پر جھگڑے اور مشتعل احتجاج مسئلہ کی شدت کا غماز ہے۔
اگر اس صورتحال کا سنجیدگی اور یکسوئ سے حل تلاش نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ پانی کی یہ تلاش ہمیں خدانخواستہ آگ کی طرف نہ لے جاۓ۔ اس معا ملہ میں کوئ دو راۓ نہیں کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے لیکن ہمارے گروہی مفادات ان وسائل کو قومی مفادات کے لۓ استعمال کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کچھ لوگ کالا باغ ڈیم کے نام پر ملک میں خانہ جنگی کو بھی قابل قبول قرار دینے لگیں۔ باہمی احترام اور باہمی اتحاد ہی وہ ہتھیار ہیں جو کسی بھی مشکل صورتحال سے لکالنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
ذرا سوچۓ کہ لاشیں گرا کر تعمیر کیا جانے والا کالا باغ ڈیم اگر پانی کی متوقع ضروریات پوری نہ کر سکا تو؟ قرآن کھولۓ اور سورۃالملک کی آخری آیت پڑھ لیجۓ۔ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ - 67:30
یعنی" بھلا سوچو تو اگر تم سے پانی اچک لیا جاۓ تو کون ہے جوتمہیں بہتا ہوا پانی واپس لا دے؟"
یہ آیت نہ صرف تنبیہ ہے بلکہ سوچنے کی دعوت دے رہی ہے کہ ایمان رکھنے کے باوجود بداعمالیوں پر قائم رہنا اور باہمی نفاق پانی جیسی نعمت سے ہمیں محروم کر سکتے ہیں۔ اسلۓ نہ صرف ہمیں اللہ سے معافی کا طلبگار ہونا چاہۓ بلکہ آئندہ کیلۓ بھی اپنی اصلاح کرنا چاہیۓ۔
یقینا اسباب اختیار کرتے ہوۓ ہمیں ڈیم ضرور بنانا چاہئں لیکن نفرتوں اور دشمنیوں کی آگ بڑھکا کر نہیں ۔ ایسا کرنا صرف ہمارے دشمنوں کے مفاد میں ہو گا۔ ہمیں مل بیٹھ کر کالا باغ ڈیم پر بھی بات کرنا ہو گی لیکن اسے آخری حل جان کر دوسرے مواقع کو نظر انداز کر دینا ہر گز دانشمندی نہیں۔ ہر علاقہ میں ایسے ندی نالے موجود ہیں جن پر چھوٹے ڈیم بنا کر کہیں کم لاگت سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ان پر کام کیا جاۓ اور ساتھ ساتھ کالا باغ پر بھی مشاورت جاری رکھی جاۓ۔ انشاءاللہ بہتر حل نکل آۓ گا۔
Comments