![](https://static.wixstatic.com/media/a4fde3_33325a6ff6c14345aa045ec815a5c369~mv2.jpg/v1/fill/w_980,h_735,al_c,q_85,usm_0.66_1.00_0.01,enc_avif,quality_auto/a4fde3_33325a6ff6c14345aa045ec815a5c369~mv2.jpg)
دین اسلام نے اپنے پیروؤں کو عیدالفطر اور عیدالاضحۓٰ کی صورت میں دو تہوار عطا کیۓ ہیں۔ انکے مقاصد کی تفصیل میں جانا اس مضمون کا مقصد نہیں۔ یہاں اسکے ایک اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔۔۔۔اور یہ پہلو ہے اتحاد و یکجہتی۔ اسلام اجتماعیت کا درس دیتا ہے تاکہ مسلمانوں کی صفوں کے اندر نظم و ضبط پیدا ہو اور اسکے مثبت اثرات باقی د نیا پر بھی پڑیں۔ نماز با جماعت ہو یا رمضان کے روزے، نظام زکوٰۃ ہو یا حج، ہر عمل اجتماعیت کا عملی نمونہ ہے۔
چاند دیکھنے کا اصول بھی شریعت نے ہمیں دیا ہے لیکن اس پر خلوص نیت سے عمل پیرا نہ ہونا ہماری اجتماعیت کو متفرق کر کے جگ ہنسائ کا سبب بن رہا ہے۔ مواصلاتی نظام اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو سمیٹ کر بہت چھوٹا کر دیا ہے۔ دنیا کے ایک کنارے پر ہونے والا کوئ واقعہ چشم زدن میں دوسرے کنارے پر رہنے والوں کو بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ ایسے میں نماز عید کے مختلف ممالک میں ہونے والے اجتماعات مکمل ثمرات دینے سے محروم ہیں۔
مختلف ممالک کے اندر مختلف دنوں میں عید منانا تو پھر بھی قابل قبول ہے لیکن ایک ہی ملک کے اندر مختلف دنوںمیں عید کرنا اجتماعیت کے فلسفے پر کاری ضرب ہے۔
یہ تفریق صرف ملک عزیز پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ دنیا کے تقریبا ہر ملک تک پھیل چکا ہے۔ اسکی بنیاد صرف فقہی اختلاف نہیں جس میں چاند کی پیدائش یا اسکی رؤیت کی دو مختلف صورتیں مختلف دنوں میں عید ہونے کا سبب بنتی ہیں بلکہ معاملہ زیادہ گھمبیر دین اسلام کی آگہی نہ ہونے کے سبب ہے۔ چاند دیکھنے کی گواہی کو کھیل سمجھ لیا گیا ہے اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کھیل کا حصہ بننے میں کوئ عار نہیں محسوس کرتا۔ اسکی تازہ مثال آسٹریلیا ہے جہاں پڑھے لکھے پانچ لوگ چاند دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پھر مناسب گواہی نہیں دے پاتے۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ پورے براعظم آسٹریلیا میں صرف پانچ آدمی چاند دیکھ پاۓ؟
گواہی کی اہمیت اور مناسب شعور پیدا کرنا علماء کی زمہ داری ہے لیکن مستقل حل صرف اسلامی ملکوں کی قیادت کے پاس ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم اگر کچھ اور کرنے سے قاصر ہے تو کم از کم چاند کا مسئلہ ہی حل کرا دے۔ کافی عرصہ پہلے بھی یہ بندہء عاجز یہ تجویز پیش کر چکا ہے کہ رؤیت ہلال کمیٹی کی آیئنی حیشیت اس وقت تک بے فائدہ ہے جب تک اسکے فیصلہ پر مکمل عملدرآمد نہیں کرایا جاتا۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ سعودی عرب کے چاند کو مان لیا جاۓ۔ پہلے ہی حج سعودی کیلینڈر کے مطابق ادا کیا جاتا ہے تو پھر رمضان اور عیدین میں انکی پیروی کرنے میں کیا قباحت ہے؟ علماء کو اس مسئلہ کے حل کے لیۓ اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنا ہو گا تا کہ انتشار کا خاتمہ ہو اور اجتماعیت کے ثمرات حاصل ہوں۔
Comments