جھوٹ انسانی تاریخ میں غالبا قدیم ترین گناہ ہے۔ شیطان نے آدم اور حوا علیہم ا لسلام کو جھوٹ بول کر ورغلایا۔ زلیخا نے جھوٹ کا سہارا لیکر یوسف علیہ السلام کو جیل بھجوایا، فرعون نے جھوٹ بول کر خدائ کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو موسیٰ علیہ السلام کے خلاف گمراہ کیا، وغیرہ۔
یہ تو انفرادی جھوٹ تھے جو مختلف ادوار میں ذاتی فائدے کے لئے بولے گئے لیکن آج ۔۔۔۔۔۔۔تو ہمارا معاشرہ سرتاپا جھوٹ میں ڈوب چکا ہے۔ انفرادی معاملات ہوں یا اجتماعی، جھوٹ کو بنیادی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ دفتر کے باہر چپڑاسی نا پسندیدہ شخص کو اندر جانے سے روکنے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ صاحب مصروف ہیں، صاحب آپ کے جائز کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے قانون کی غلط تشریح کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اگر وکیل اپنے مؤکل کو بچانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے تو بہت سے جج بھی ناپسندیدہ ملزم کو سزا دینے کے لئے بے تابی سے نکتے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ مولوی ممبر پر بیٹھ کر خود ساختہ حلال وحرام بیان کر رہا ہوتا ہے تو مقتدی بھی اپنی بیوی کو طلاق دے کر اسکے دوبارہ حلال ہونے کے لئے جھوٹے فتوے کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ گویا کہ یہ فہرست نہ ختم ہونے والی ہے۔ ہر معاملہ جھوٹ سے شروع ہو کے جھوٹ پہ ہی ختم ہوتا ہے۔
اس دوڑ میں میڈیا سب پر بازی لے گیا ہے۔ کسی بھی خبر پر جھوٹ کا ملمع چڑھا دینے کو "بریکنگ نیوز" کہا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دن کی بر یکنگ نیوز اگلے روز تردید کی صورت میں شائع کرنا پڑتی ہے۔ کیونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ سوشل میڈیا میں تو جھوٹ بولنا کار ثواب سمجھا جاتا ہے۔ خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور تصویریں فوٹوشاپ کر کے دوسروں کی تذ لیل کرنا فن کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔
لیڈر حضرات جھوٹے دعوے کر کے بھول جاتے ہیں اور کچھ دنوں بعد اسکے بر عکس دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟
دراصل جھوٹ بول کر ہم اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔ جھوٹا شخص اس شیطانی اصول کی پیروی کرتا ہے جو یہ تعلیم دیتا ہے کہ "اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں"۔ اس اصول پر اندھا دھند عمل کرنے سے ہمارے اندر اعتماد کا عنصر مفقود ہو چکا ہے۔ ہر جھوٹ بولنے سے قبل اسکا جواز تلاش کیا جاتا ہے۔ کسی کو کسی پر اعتماد نہیں۔ ووٹراور امیدوار، عدالت اور سائل، دکاندار اور گاہک، امام اور مقتدی، صحافی اور قاری، استاد اور شاگرد، ایک قومی ادارہ مقابل دیگر، سب ہی باہمی عدم اعتماد کا شکار ہیں۔
بد اعتمادی کی انتہا دیکھئے کہ الیکشن کے لئے بھی نگران حکومت کا انتظام کیا جاتا ہے جسکی نظیر دنیا میں کہیں نہں ملتی۔ دو ماہ کی حکومت کا بھلا عوام کی بہتری میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اسطرح دو ماہ کے لئے عوام کو لاوارث کر دیا جاتا ہے جسکی وجہ جھوٹ اور عدم اعتماد ہے۔
مذہبی اعتبار سے بھی ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جھوٹ بولنے والے پر لعنت فرمائ ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ من حیث القوم ہم اللہ کی لعنت کا شکار ہیں؟ پھر کیسی ترقی اور کیسی کامیابی؟ یہ اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے۔۔۔۔۔۔ جھوٹ کا خاتمہ حکومتی حکم سے نہیں ہو سکتا۔ جب ہم اللہ کے حکم "جھوٹ بولنے سے بچو" کو نہیں مانتے تو پھر دنیاوی حکومت کس باغ کی مولی ہے؟
اب تو الیکشن کی صورت میں جھوٹ بولنے کا قومی مقابلہ شروع ہو چکا ہے۔ اللہ نہ کرے، لیکن خدشہ ہے کہ اس مقابلہ میں جھوٹ کے عالمی نہ سہی، قومی ریکارڈ قائم کرنے والا گروہ ہی کامیاب ہو گا۔ اسکے بعد اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق اور اسکے ہم پر اثرات نا قابل بیان ہیں۔
ہر دن اور ہر رات ہمیں خود احتسابی کرنا ہو گی۔ رات بستر پر جا تے ہی جائزہ لیں کہ آج کتنے جھوٹ بولے؟ یہ عمل اس گناہ کبیرہ سے بچنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ یا اللہ ہمیں جھوٹ جیسی لعنت سے چھٹکارا نصیب فرما۔ آمین
Comments