پہلے پہل طبیب حقیقتاً دکھی انسانیت کی خدمت کیا کرتے تھے۔ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ گھوم کر جڑی بوٹیوں کی تلاش کے ساتھ ساتھ بیماروں کا علاج کرتے اور مفلسوں کو دوا بھی اپنے پاس سے دے دیتے تھے۔ جن مریضوں سے معاوضہ لیتے وہ بھی صرف دوا کی قیمت ہوتی تھی۔ چنانچہ اس رزق حلال کے طفیل اللہ انکو دونوں جہانوں کی بھلائی نصیب فرماتا تھا۔ دنیا میں بھی عزت و وقار کے ساتھ شہرت کی دولت نصیب ہوتی تھی اور آخرت میں بھی خدا خوفی کے سبب درجات کی بلندی عطا ہوتی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ زندگی کے باقی شعبوں کی طرح طب کے شعبہ میں بھی مادہ پرستی چھا گئی۔ اور اب تو
؎ ترقی کہوں کہ تباہ ہو گئی ہے
محو تماشہ ہوں کہ دنیا کیا ہو گئی ہے
طبیبوں نے دوا کی قیمت کے ساتھ اپنی فیس بھی نتھی کر دی ہے۔ پھر اس "فیس" کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہونے لگا۔ طبّ انگریزی نے دوا کا شعبہ الگ کر دیا۔ اب ڈاکٹر کورے کاغذ پر دو لفظ لکھنے کے ہزاروں روپے فیس وصول کر نے لگا اور دوا کی قیمت الگ دینا پڑتی ہے۔ خدمت کا تصوّر مادہ پرستی اور ہوس دولت کے غبار میں دھندلا چکا ہے۔ بعض ڈاکٹر حضرات تو فیس کے معاملہ میں مجبور و بے کس مریض کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ فیس کی رقم نہ ہونے کا عذر کرنے والوں کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ بھی واپس لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ خیر یہ تو پھر بھی قابل درگزر بات ہے کیونکہ معاوضہ لینا ڈاکٹر کا حق ہے۔ لیکن اس شعبہ میں ایسے نا عاقبت اندیش افراد بھی در آۓ ہیں جو معمولی بیماری کے لئے بھی ایسا نسخہ تجویز کرتے ہیں تا کہ مریض ہمیشہ مریض ہی رہے اور دھندہ چلتا رہے۔ ایک مرض ٹھیک ہو تو دوسرا لاحق ہو جاۓ۔ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جو معمولی زکام یا بخار کے لئےبھی درجنوں ٹسٹ لکھ دیتے ہیں تاکہ انکی ذاتی یا کسی قریبی رشتہ دار کی لیبارٹری اور ایکسرے مشین چلتی رہے۔ یہ صریحاً ظلم ہے اور جان بُوجھ کر مریض پر ان ٹسٹوں کا ناروا بوجھ ڈالنا قطعاً نا جائزہے۔ ایسے ڈاکٹر کی آمدن کو حلال نہیں کہا جا سلتا۔ ایسے عطائیےبھی موجود ہیں جو چند ٹکے کمانے کی خاطر جعلی اور مضر صحت دوائیں دھوکے سے بیچ کر لوگوں کی زندگی سے کھیلتے ہیں ۔ ایسے لوگ رزق حلال کمانے کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں؟ پیسے لیکر ، چھٹیاں لینے کی خاطر سرکاری ملازمین کو جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا کر دینا عام دھندا بن چکا ہے۔ ڈرگ کمپنیوں کے درمیان کاروباری مسابقت نے مشہور ڈاکٹروں کی اور بھی چاندی بنا دی ہے۔ ایسی دوائیں بنانے والی فرمیں ان ڈاکٹروں کو اپنی بنا ئی ہوئی دوا ئیں تجویز کرنے کے عوض قیمتی تحائف سے نوازتی ہیں جن میں بعض اوقات کاریں تک شامل ہوتی ہیں ۔
سرکاری ہسپتالوں میں انتظامی عہدوں پر فا ئز ڈاکٹر سرکاری دواؤں میں لاکھوں کا ہیر پھیر کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سالانہ کروڑوں روپے کی دوائیں خریدنے کے باوجود غریب اور مستحق مریض ہسپتال سے دوا حاصل نہیں کر سکتے۔ انہیں نسخے لکھ کر دے دۓ جاتے ہیں کہ یہ دوا بازار سے لے لو۔ البتہ اثرو رسوخ رکھنے والی غیر مستحق شخصیت کو ہسپتال سے دوا مل جاتی ہے بلکہ سٹور میں دوا نہ ہونے کی صورت میں خصوصی اختیار کے تحت "لوکل پرچیز" فارمولہ کے تحت بازار سے دوا منگوا کر دے دیجاتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کے اندر ڈاکٹروں کا مریضوں سے سلوک انہیں مجبور کر دیتا ہے کہ وہ متعلقہ ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں فیس دے کر اپنا معائنہ کراۓ۔ تب ہی انہیں ڈاکٹر کی قدرے توجہ نصیب ہوتی ہے۔ پھر ڈاکٹر صاحب اپنے دل کی تمام بھڑاس نکالتے ہیں اور ہر حربہ استعمال کر کے مریض اور اسکے لواحقین سے رقم بٹورتے ہیں ۔ ڈاکٹروں کا یہ غیر انسانی رویّہ نہ صرف انکے پیشے کے وقار کے منافی ہے بلکہ اسطرح وہ عوام کی ہمدردیاں بھی کھو بیٹھتے ہیں ۔ سب سے بڑھ کریہ حقیقت قابل غور ہے کہ انکا یہ طرز عمل انکی محنت پر پانی پھیر کر انکی روزی میں حرام کے عنصر کو داخل کر دیتا ہے۔
اگرچہ آج بھی درد دل رکھنے والے فرشتہ صفت ڈاکٹر موجود ہیں جنکی گفتگو اور رویّہ ہی مریض کی آدھی بیماری دور کر دیتا ہے۔ لیکن انکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ یہ لوگ نہ صرف اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں بلکہ مریض کے علاج کو عبادت سمجھ کے کرتے ہیں۔ بعض تو مستحق لوگوں کو پہچان کر دوا بھی اپنے پلے سے مفت ہی دے دیتے ہیں۔ البتہ جب کسی طبقہ کے بارے میں عمومی جا ئزہ لیا جاۓ تو اعتبار اکثریت ہی کا کیا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے سوکھی کے ساتھ گیلی لکڑی بھی جلتی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ معاشرہ کے ہر طبقہ کے اندر اچھے اور برے ہر دو طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ صرف انکی تعدادی نسبت اس طبقہ کے بارے میں راۓ کی بنیاد بنتی ہے۔
۷ -تعلیم:
یہ ایسا اہم شعبہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے آخری رسول جناب محمد الرسول اللہﷺ پر وحی کا آغاز ہی "اقرا٫" کے لفظ سے فرمایا یعنی "پڑھ"۔ پھر تعلیم دینا فرائض نبوت میں سے قرار دیا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ "اے نبی کھول کھول کر بیان کر ہماری آیتوں کو"۔ اتنے اہم شعبہ کے اتنے اہم ارکان یعنی اساتذہ کرام بھی اپنے فرائض میں کوتاہی کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔حالانکہ اللہ جلّ شانہ نے اپنےپیغمبرﷺ کو بھی واضح الفاظ میں متنبہ کر دیا تھا کہ "اےنبیؐ اگر آپ نے میرے احکامات میرے بندوں تک نہ پہنچاۓ تو آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا"۔ یہ جناب ﷺ کو مخاطب کر کے اپنے بندوں کو سنایا گیا ہے کہ وہ تعلیم کے معاملہ میں بخل اور کاہلی کا مظاہرہ نہ کریں ۔ اسلئےکہ جناب خاتم ا لانبیا٫ ﷺ کی ذات اقدس سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی فرما ئیں گے۔ پھر اس تاکید کا مقصد خاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا کہ اساتذہ کا درجہ معاشرہ میں بلند ہے اور اسی نسبت سے انکے ذمہ فرا ئض بھی انتہا ئی اہمیت کے حامل ہیں۔ پس ضروری ہے کہ وہ اپنے فرض کو کما حقہٗ ادا کریں۔
اسکی اہمیت کیوں اتنی زیادہ ہے؟ اس سوال کا جواب بھی انتہائی آسان ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن کی بنیاد ہے۔ اگر ایک نسل نئی آنے والی نسل کو علم کا ورثہ صحیح طور پر منتقل نہ کریگی تو دنیا اندھیروں کا گھر ہو جا ئے گی۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے لیکر تہذیب و اخلاق تک اور کا ئنات کی گوناگوں نعمتوں سے استفادہ کے لئےمروّج صنعت و حرفت سے لیکر پیٹ کا ایندھن پورا کرنے تک تمام باتوں کا علم پشت در پشت انسانی نسل میں چلا آتا ہے۔ پھر آنے والی نسل پچھلی نسل کے دئے ہوۓ علم میں تحقیق و تجربہ سے مفید اضافے کرتی ہے اور اسطرح اللہ ربّ العزت اپنے بندوں کو کا ئنات کی معرفت عطا فرماتے ہیں۔ چنانچہ علم کی منتقلی میں کسی قسم کی کوتاہی اس فطری دا ئرہ کو روک دینے کا سبب بن سکتی ہے جو کہ یقیناً ایک بڑا جرم ہے۔ پس ایسا شخص جو معاوضہ لیکر اور ایک خاص منصب پر فا ئض ہوتے ہوۓ اپنے فرا ئض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے وہ رزق حلال کمانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
آ ئیےاس بات کا جا ئزہ لیتے ہیں کہ وہ کونسی کوتاہیاں ہیں جو آج کے اساتذہ میں سے اکثر دانستہ یا نا دانستہ طور پر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات اساتذہ کا تعلیمی سرگرمیوں میں "بے توجہی" برتنا ہے۔ اسکی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اکثر اساتذہ تعلیمی اداروں کے اندر طلبا٫ کو وہ توجہ نہیں دیتے جو دینا چاہیٔے۔ عموماً اساتذہ کا یہ رویّہ جانے بُوجھے ہوتا ہے کیونکہ اسطرح انہیں ٹیوشن کی صورت میں اپنی آمدن بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اگر کلاس کے اندر ہی وہ تمام علم خوش اسلوبی سے طالب علم کو منتقل کر دیں تو پھر اضافی آمدن کا یہ دروازہ کیسے کھلے؟ لیکن انہیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئےکہ اسطرح وہ دہرا جرم کرتے ہیں ؛ ایک تو معاوضہ پورا لینے کے باوجود طلبہ کو پوری توجہ نہ دینا جرم ہے اور پھر ٹیوشن کی صورت میں طلبہ پر اضافی مالی بوجھ ڈالنا دوسرا ظلم ہے۔
دوسری بات طلبہ سے "بیگار" لینا ہے۔ یہ بیماری اگرچہ شہری علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن دیہات کے سکولوں میں اسکی شرح بہت زیادہ ہے۔ وہاں عموماً طلبہ اپنے اساتذہ کے گھریلو کام کاج اور کھیتی باڑی کر کے سکول سے سرٹیفکیٹ حاصل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح ہنر سیکھنے والے بچے کو بھی عموماً کام سکھانے کی بجاۓ بیگار میں پکڑ لیا جاتا ہے۔ اسکے نتیجہ میں کئی سال تو وہ استاد کے مہمانوں کے لئے چاۓ ڈھوتا رہتا ہے۔ یہ طرز عمل بھی رزق حلال کے ماتھے پر دھبّہ ہے۔
تیسری بات طلبہ کے استحقاق میں "ہیرا پھیری" ہے۔ اگرچہ اسکی بھی کئی وجوہات ہیں؛ مثلاً سیاسی دباؤ، افسران بالا کی طرف سے سفارش، رشوت، طلبہ کی جانب سے دھمکیاں۔ تعلقات اور برادری ازم وغیرہ۔ لیکن اسکے باوجود دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ اساتذہ امتحانات میں کسی بھی دباؤ کے آگے نہ جھکیں اور جو طالب علم جس قدر مستحق ہو اسے اسی قدر نوازنا چاہیٔے۔ امتحانی پرچے تبدیل کرنے ، خصوصی طور پر امتحانی ہال کے باہر پرچے حل کر ا کے اندر لاۓ جانے، سوالات کے پرچے آؤٹ کرنے، نمبر دینے میں کمی بیشی کرنا، زبانی امتحان میں جان بُوجھ کر کسی کو فیل کرنے کی خاطر مشکل سوالات پوچھنا یا بعض دوسروں کو نوازنے کی خاطر بغیر سوالات کئے پاس کر دینا ، وغیرہ۔ یہ سب ہی چیزیں آجکے تعلیمی نظام کا حصہ بن چکی ہیں ۔ ایسے تمام واقعات اساتذہ کی طرف سے اہم رول ادا کئے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتے اور اساتذہ کے رزق میں حرام کی آمیزش کرنے کا موجب ہیں۔
معاشرے کے اہم طبقات کا یہ جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر طبقہ میں معنوی رزق حرام کی بہتات ہے اور ہر طبقہ کی اکثریت اسے معمول کی زندگانی بناۓ بیٹھی ہے۔ معنوی حرام کی طرف معاشرے کا یہ آذادانہ رویّہ کسی بھی قوم کی اعلیٰ تہذیبی اقدار کو زمین بوس کر دیتا ہے جسکا ایک خاص حد سے زیادہ پھیلاؤ قوموں کو کرہ٫ ارضی سے نیست و نابود کر دیا کرتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرہ کے اندر بھی اس حرام خوری کے پھلنے پھولنے کی رفتار بہت تیز ہے اور دن بدن اس عفریت کی گرفت معاشرہ کے مہذب طبقات پر بڑھتی جا رہی ہے۔ غیر تہذیب یافتہ طبقہ میں حرام خوری اسکے علاوہ ہے۔ جن میں چوری، ڈکیتی، اور ظلم و جبر سے چھینا ہوا مال شامل ہے۔ جیب تراشی اور دھوکہ فراڈ سے حاصل کیا جانے والا مال اسکے علاوہ ہے۔ بھیک اور گداگری جیسی حرام خوری بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے جسکے لئے آۓ دن نت نئےطریقے اختیار کیٔے جاتے ہیں۔ گلیوں اور بازاروں میں کوئی ایسا مقام نہیں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اور گداگر نہ پاۓ جا ئیں۔ لیکن افسوس کہ صورت حال کی اصلاح کے لیٔے کوئی کاروا ئی موجود نہیں۔
۸- حرام فی نفسہٖ:
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہےکہ یہ ایسا رزق حرام ہے جو کہ واقعتاً حرام فی ا لذات ہو اور اسکی حرمت ہر حال میں برقرار ہو۔ اس کا استعمال صرف حالت اضطراری میں جا ئز ہے لیکن وہ بھی اتنی مقدار میں جو جان بچانے کے لئےکافی ہو۔ اس ذیل میں مردہ ، لہو، خنزیر کا گوشت اور دیگر حرام جانوروں کے گوشت ، شراب اور دیگر منشیات شامل ہیں۔ ہمارے معاشرہ کے اندر موجودہ دور میں خنزیر کا گوشت، لہو، مردہ اور دیگر حرام جانوروں کا استعمال تو بالکل متروک ہے البتہ بعض نا عاقبت اندیش افراد دھوکے سے اس کی فروخت میں ملوث ہیں۔ مگر شراب اور منشیات کا استعمال بعض طبقات میں خوب کیا جاتا ہے۔ معاشی لحاظ سے درمیانہ طبقہ اسکی ذد سے قدرے محفوظ ہے جبکہ نچلا اور اونچا طبقہ اسکی گرفت میں بری طرح جکڑا جا چکا ہے۔
نچلے طبقے میں کم قیمت دیسی کپیّ اور ٹھراہ وغیرہ چلتے ہیں ۔ جبکہ اونچے طبقہ میں درآمد شدہ شراب کی مختلف اقسام مقبول ہیں۔ بد قسمتی سے اس کا شکار قومی رہنما بھی ہیں جن میں سیاستدان اور اعلیٰ سرکاری افسران شامل ہیں۔ پھر مزید قابل افسوس بات یہ ہے کہ اسے سٹیٹس سمبل اور فیشن سمجھا جانے لگا ہے۔ اسی طرح دیگر منشیات جن میں ہیروئن، چرس، افیون اور بھنگ وغیرہ شامل ہیں بکثرت استعمال کی جاتی ہیں۔ ان سب کی بنیاد تمباکو ہے۔ سگریٹ یا حقّہ پینے والے لوگ اسکا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو بہت تیزی سے پھیلتی ہے کیونکہ اسکا تعلق سوسائٹی سے ہے ۔ دوستوں اور ہم جولیوں کے ایک گروہ میں صرف ایک نشہ کرنے والا داخل ہو جاۓ تو وہ پورے گروہ کو اسکا عادی بنا دیتا ہے۔
نشہ نہ صرف صحت بلکہ مال ودولت کا بھی دشمن ہے۔نشے کا عادی شخص آہستہ آہستہ قلاش ہو جاتا ہے کیونکہ ایک طرف وہ اپنی جمع پونجی نشہ میں جھونک دیتا ہے اور دوسری طرف کام کرنے اور مال کمانے کی صلاحیت، رغبت اور طاقت اس سے زائل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب مال ختم ہو جاتا ہے تو پھر نشہ کا انتظام کرنے کا صرف ایک ہی آسان ذریعہ رہ جاتا ہے کہ وہ دوسرے ہم نشینوں کو اسی نشہ کا عادی بناۓ تا کہ انہیں یہ نشہ آور شئےفروخت کر کے اپنے لئےبھی کچھ رقم مہیا کر سکے۔ اس طرح یہ دائرہ تیزی سے پھیلتا چلا جاتا ہے۔ یہ حرام فی نفسہٖ کا ظاہری اور فوری انجام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس سے محفوظ رکھے، آمین۔
۹ - مسلم اور غیر مسلم اقوام میں بلحاظ رزق فرق:
یوں تو تمام اقوام عالم آج کی دنیا میں حرام کھانے پر غیر اعلانیہ طور پر متفق ہو چکی ہیں۔ لیکن ہر قوم کے اندر حرام کی بعض خاص صورتیں مروّج ہیں۔ انکا جائزہ لیں تو یہ حقیقت منظر عام پر آتی ہے کہ غیر مسلم اقوام کے اکثر باشندے حرام فی نفسہٖ کھاتے ہیں جبکہ حرام معنوی کھانے والوں کی تعداد کم ہے۔ اسکے برعکس مسلمان قوم کے اندر معنوی حرام کھانے والوں کی اکثریت ہے جبکہ حرام فی نفسہٖ کھانے والوں کی تعداد کم ہے۔
یہ صورت حال خاصی فکر انگیز ہے۔ خصوصاً مسلمانوں کے لئےجن کا سچاّ دین اسلام ایسے شاندار قوانین وضوابط پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے والے نہ صرف آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہونگے بلکہ دنیا میں بھی اسکے ثمرات پا لیتے ہیں۔ غیر مسلم اقوام کا معاملہ دوسرا ہے۔ ایک تو ان پر مذہب کی طرف سے کوئی خاص بندش نہیں اور اگر بعض مذاہب میں حرام سے ممانعت ہے بھی تو اُن اقوام کا اپنے مذہب کو اور اسکے احکامات کو خاص اہمیت نہ دینا یا ان پر عمل کرنا ہماری نظر میں برابر حیثیت کا حامل ہے۔ اسلئےکہ آج کرہ٫ ارضی پر اسلام ہی وہ سچاّ دین ہے جو انسانی فطری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوۓ لازوال آسمانی قوانین پیش کرتا ہے۔ پس مسلمان قوم کے لئے حرام سے بچنا اشد ضروری ہے اگرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
Comments