صوبہ خیبر پختونخواہ کے رہنے والے اس محاورہ سے بخوبی واقف ہونگے۔ اس محاورہ کا وجود ہی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ ہم اکثریت کے ساتھ یہی مزاج رکھتے ہیں۔ تعریف کرنے پہ آئیں تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور اسی کو "توت پر چڑھانا" کہتے ہیں جو کہ ایک بڑی جسامت کا درخت ہے۔ جب دل بھر جائے تو بلا وجہ ہی زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔ کاش کہ ہم حقائق سے چشم پوشی کرنا چھوڑ دیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے ہر حکومت نجکاری کی پالیسی کے تحت قومی تحویل میں چلنے والے اداروں کو اونے پونے میں فروخت کرتی رہی۔ بہتر یہ ہوتا کہ انہیں منافع بخش بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے۔ اس طرح لوگوں کو روزگار بھی ملتا اور حکومت کے اثاثے بھی محفوظ رہتے۔ ان حکومتوں نے آسان راستہ اختیار کیا اور اثاثوں کو بیچ کر ملکی بجٹ کا خسارہ کم کرنے میں استعمال کیا۔
اب اس طرح کے ملکی اداروں اور کارخانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ ان میں سٹیل مل، پی آئی اے وغیرہ شامل ہیں۔ لہٰذا نئی حکومت نے نئی مد تلاش کر لی ہے۔ اب نجکاری کی بجائے "سادگی مہم" کی اصطلاح تراش کرسرکاری رہائشگاہوں، سرکاری گاڑیوں اور ایک خبر کے مطابق سرکاری بھینسوں کو بھی نیلام کیا جائے گا یا کسی دوسرے مصرف میں لایا جائے گا "سادگی مہم" کی حسب توقع پزیرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔
سادگی کی ضرورت سے ہر گز انکار کی گنجائش نہیں لیکن اس کی آڑ میں ضروری قومی اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنا قطعا دانشمندی نہیں۔ سرکاری عمارتیں قومی وقار کی علامت ہوتی ہیں اور اہم بین الاقوامی تقاریب میں انکی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کاریں یا دیگر اشیاء بھی غیر ملکی مہمانوں کے لئے ضرورت پڑتی ہیں۔
آج ان اثاثوں کو فالتو سمجھ کر جان چھڑانا آسان ہے لیکن کل یہی حکومت یا کوئی اور آنے والی حکومت ان اثاثوں کی ضرورت محسوس کرکے جب نئے اثاثے بنائے گی تو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ تب کوئی دوسرا "توت پر چڑھے" ہوئے کو دھکا دے رہا ہو گا۔ ہماری تاریخ کے ستر سال اس حقیقت کے گواہ ہیں۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ جلد بازی اور جذباتی فیصلوں کی بجائے ہوش سے فیصلے کئے جائیں۔
Comments