top of page

بوسہ اور سجدہ کی شرعی حیثیت

Writer's picture: Anayat BukhariAnayat Bukhari

بوسہ کا صحیح طریقہ

بوسہ اور سجدہ


اسلام شرک کے خاتمہ اور خالق کائنات وحدہ لاشریک کی وحدانیت کی تعلیم دینے کے لئے آیا۔ قرآن کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء ﷺ تک تمام پیغمبر اسی بات کی تعلیم دیتے رہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراؤ اور اللہ کے پیغمبر کی رسالت کو تسلیم کرو۔ اس تعلیم کو مان لینا عقیدہ کہلاتا ہے۔ گویا کہ تمام انبیاء علیہم ا لسلام نے ایک ہی عقیدہ کی تعلیم دی۔


البتہ عبادات اور معاملات کے قوانین تبدیل ہوتے رہے۔ اسے شریعت کہا جاتا ہے۔ ہر پیغمبر کو اسکی قوم کے لئے شریعت دی گئی وہ کسی نہ کسی لحاظ سے مختلف تھی۔ وقت اور ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلی کر دی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر حضرت یوسف علیہ ا لسلام کو بھایئوں کا سجدہ کرنا سورۃ یوسف میں مذکور ہے۔ یہ سجدہ تعظیمی تھا۔ اور انکی شریعت میں جائز تھا۔ لیکن شریعت محمدی نے اسکی ممانعت کر دی۔اسی طرح فرشتوں کا آدم علیہ السلام کو سجدہ بھی قرآن میں مذکور ہے۔


ابی داؤد (2140) اور الحاکم (2763) میں روایت ہے کہ قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ھیرہ گیا اور میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنے معززین کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ اللہ کے رسول ﷺ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ انکے آگے سجدہ کیا جاۓ۔ پس میں پیغمبر ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ، کہ میں ھیرہ گیا اور میں نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنے معتبر کے سامنے سجدہ کرتے تھے۔ آپ اللہ کے رسول ہیں اور زیادہ مستحق ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جاۓ۔ آپ ﷺ نے فرمایا؛ "ایسا مت کرو، اگر میں سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ اس لئے کہ اللہ نے خاوند کو بیوی پر حق دیا ہے۔"

حاکم نے اسے صحیح کا درجہ دیا ہے اور ذہبی نے تائید کی ہے۔ البانی نے اسے ابی داؤد میں صحیح کا درجہ دیا ہے۔

اسی طرح کی اور احادیث بھی کتب میں موجود ہیں لیکن اختصار کا تقاضہ ہے کہ اصل موضوع پر آیا جاۓ۔


مسجد کا لفظ بھی سجدہ سے نکلا ہے جو کہ شریعت محمدی میں عبادت کی معراج ہے۔ اور سجدہ جسم کے اوپر والے حصہ کو زمین کے قریب تر لے جانا ہے۔ پیشانی زمین پہ نہ رکھی جاۓ تو درست لیکن کسی خاص سبب سے نہ رکھی جاۓ تب بھی سجدہ ہی کی پوزیشن ہے جیسا کہ کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھنے والے کا سجدہ ہوتا ہے۔


"عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے ہوۓ سنا کہ ؛جو کوئ اللہ کے سامنے سجدہ کرے، اللہ اسکے لئے ایک نیکی لکھ لیتا ہے، ایک گناہ معاف کردیتا ہے اور ایک درجہ بلند کر دیتا ہے۔ پس تم زیادہ سجدہ کیا کرو"۔ ابن ماجہ 1424

معلوم ہوا کہ سجدہ عبادت کا حصہ ہے اور تعظیمی سجدہ جائز نہیں رہا۔

اب دیکھتے ہیں کہ بوسہ کیا ہے اور اسکی شرعی حدود کیا ہیں؟

بوسہ چومنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اپنے بچوں کو اور اپنے بڑوں کو شفقت اور احترام کے جذبات کے ساتھ چومتے ہیں۔ میاں بیوی محبت میں بوسہ لیتے ہیں۔ یہ تو انسان کا انسان کے لئے جذبات کا اظہار ہے۔ لیکن پتھر اور عمارت کا معاملہ مختلف ہے۔


عقیدت کے اظہار کے لئے حجر اسود کو بوسہ دیا جاتا ہے اور رکن یمانی سے لپٹ کر دعائیں کی جاتی ہیں۔ یہ شعائراللہ ہیں اور اللہ کے رسول ﷺ نے یہ عمل اللہ کے حکم سے کیا اور ہمیں اسکا حکم دیا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ حجر اسود کا چومنا اور رکن یمانی سے لپٹنا دراصل اللہ کے حکم کی تعمیل ہے اور اسے عبادت کہتے ہیں۔ یہ پتھر کی عبادت یا اسکا احترام نہیں۔ جیسا کہ خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔

عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دوران طواف حجر اسود کو بوسہ دیا اور پھر حجر اسود کو مخاطب کرتے ہوۓ فرما یا؛ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تم صرف ایک پتھر ہو، نہ تو فائدہ دے سکتے ہو نہ نقصان۔ اگر میں نے پیغمبر ﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا۔" اس سے آگے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکا لمہ درج ہے۔ لیکن یہ سب حجر اسود کے ساتھ مخصوص ہے۔ کوئ اور پتھر اسکی جگہ نہیں لے سکتا۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ بیت اللہ کا طواف مکہ میں بیت اللہ سے مخصوص ہے۔ کسی اور جگہ ویسا ہی کعبہ بنا کر اسکا طواف نہیں کیا جا سکتا۔


لہٰذا سجدے کی پوزیشن بنا کر بوسہ لینا اور کسی قبر یا مزار کا بوسہ لینا جائز نہیں۔ اگر کوئ اسے جائز سمجھتا بھی ہے تو بھی اس سے بچنا بہتر ہے کیونکہ اسکے نہ کرنے سے نقصان نہیں لیکن کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے۔ "تلک حدوداللہ فلا تقربوہا" یہ اللہ کی حدیں ہیں انکے قریب مت جاؤ۔


وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

59 views0 comments

Recent Posts

See All

Comments


© 2019 by Anayat Bukhari

bottom of page