![](https://static.wixstatic.com/media/a4fde3_b444b87d68f2489fb743eed64bcb9435~mv2.jpg/v1/fill/w_840,h_564,al_c,q_85,enc_avif,quality_auto/a4fde3_b444b87d68f2489fb743eed64bcb9435~mv2.jpg)
حسرت
پاکستان کو اکثر غریب ملک سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر نہ صرف بیرون ملک عام ہے بلکہ اندرون ملک بھی اسی بات کو اچھالا جاتاہے۔ وسائل ہونے کے باوجود عوام حسرت و یاس کی تصویر بننے پر مجبور ہیں۔ یوں تو اسکی وجوہات بے شمار ہیں لیکن سب سے اہم دوباتیں ہیں۔ اول بد نیتی اور دوم بد انتظامی۔
کریڈٹ لینے کی بیماری اتنی عام ہے کہ اگر کہیں پبلک ٹایلٹ تعمیر کیا جاتا ہے تو اس پر بھی ایک نمائشی تختی اور افتتاحی تقریب کا انعقاد ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اگر حکومت کوئ منصوبہ شروع کرتی ہے؛ بھلا ہو یا برا، مخالفین فورا عدالت سے اسے رکوا دیتے ہیں۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ ایسی وارداتوں سے بھری ہوئ ہے۔ اس سارے عمل کی ذمہ داری کسی ایک شخص، کسی ایک سیاسی پارٹی یا کسی ایک ادارے پہ نہیں ڈالی جا سکتی کیونکہ مجموعی طور پر سب ہی اس میں قصوروار ہیں۔ دعویٰ پاکستان کی خدمت کا لیکن جڑیں پا کستان کی ہی کاٹی جاتی ہیں۔ یہ وہ بدنیتی ہے جو ملک کو ترقی کرنے سے روکتی ہے۔
بدانتظامی میں ایک وجہ تو ترجیحات کا تفاوت ہے لیکن بڑی وجہ مسائل حل کرنے کے غلط طریقے ہیں۔ مثال کے طور پربے روزگاری کو لیجئے۔ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے روزگار پیدا کرنے کی بجاۓ انکم سپورٹ اور سمال لون پروگرام کا سہارا لیا جاتا ہے۔ غربت کنٹرول کرنے کے لئے یوٹیلیٹی سٹور پر سستے داموں اشیاء فراہم کی جاتی ہیں۔ مختلف اجناس پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ حال ہی میں عدالتی حکم کے تحت موبائل کارڈ پر ٹیکس ختم کیا گیا۔ کسی نے سوچا کہ ان سب اقدامات کا نقصان کسے ہوتا ہے؟
ہمارے ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہمارے جوان ہیں۔ یہ ملک پر بوجھ نہیں بلکہ افرادی قوت ہیں۔ اگر ہم انہیں منظم کر کے صرف ذراعت کے شعبہ میں ہی ایک پروگرام کے تحت لگا دیں تو زرعی پیداوار کئی گنا بڑھ سکتی ہے اور نوجوان بھی خوشحال ہو سکتا ہے۔ ملک کا چپہ چپہ زیر کاشت لا کر سبز انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ محکموں میں بھرتی کر کے مفت کی تنخواہ بانٹنا ہر گز قابل برداشت نہیں۔ یہ پالیسی پہلے ہی پی آئ اے، سٹیل ملزاور یوٹیلیٹی سٹور جیسے قومی ادارے تباہ کر چکی ہے۔
پاکسوچ اپنائے۔۔۔۔۔۔۔
Comments