![](https://static.wixstatic.com/media/a27d24_4399bd42d9be4457b69095f905437fa6~mv2.jpg/v1/fill/w_593,h_366,al_c,q_80,enc_avif,quality_auto/a27d24_4399bd42d9be4457b69095f905437fa6~mv2.jpg)
ریاست مدینہ اورکرپشن
"کرپشن کے خلاف مہم" ایک خوشنما نعرہ ہے جو مختلف ادوار میں متعدد ممالک میں "ہم خرمہ و ہم ثواب" کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں بھی اسے مقبولیت کا درجہ حاصل ہے۔ بعض حکومتوں نے اسے باقاعدہ اپنے ایجنڈا کا حصہ بھی بنایا۔ اس میں کس حد تک کامیابی ہوئی اور کتنے اخلاص سے یہ مہم چلائی گئی؟ یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
موجودہ حکومت نے بھی اسے اپنا بنیادی مقصد قرار دے رکھا ہے۔ فرق یہ ہے کہ اب ریاست مدینہ کو اپنے لئے ماڈل ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا موجودہ "کرپشن کے خلاف مہم" ریاست مدینہ کے معیار سے مطا بقت رکھتی ہے؟
یہ بات تو واضح ہے کہ ریاست مدینہ کے عوام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین تھے اور سربراہ نبی کریم ﷺ تھے۔ ہم تو ان ہستیوں کی گرد پاء بھی نہیں۔ انکے کرداراور گفتار کو اپنانے کی کوشش تو کی جا سکتی ہے لیکن اس معیار تک پہنچنے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست مدینہ کا قانون قرآن اور سنت تھا ۔
قرآن کہتا ہے؛
یأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ - 49:12
ترجمہ:" اے ایمان والو! بہت (بد) گمانیوں سے بچتے رہو۔ بےشک بعض گمان گناہ ہیں۔ اور جاسوسی نہ کرو۔ اورپیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم (یقینا) اسے نا پسند کرتے ہو۔ اور ڈرو اللہ سے ۔ بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔" الحجرات 49:12
اسکا مطلب یہ ہوا کہ بغیر کسی ٹھوس شہادت کے کسی کے متعلق گمان قائم کرکے اس پر الزام لگا دینا اور پھر اسی الزام کے سہارے اسے گرفتار کر لینا درست نہیں۔ اس کے بعد غلط ہتھکنڈے استعمال کر کے ثبوت تلاش کرنے کی کوشش بھی غلط ہے۔ چنانچہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس سارے عمل میں ملزم کو جسمانی اور زہنی اذیت دینا اور اسکی عزت داغدار کرنا کیسا ہے؟ درج ذیل آیت اس موضوع کی وضاحت کرتی ہے؛
یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ - 49:11
ترجمہ: "اے ایمان والو! ایک گروہ دوسرے کا مزاق نہ اڑائے اور نہ ایک قوم دوسری قوم کا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ (جنکا مزاق اڑایا جا رہا ہے) بہتر ہوں ان سے۔اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا (مزاق اڑائیں) ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں (مزاق اڑانے والیوں) سے۔ نہ الزام دو ایک دوسرے کو اور نہ برے نام سے پکارو ایک دوسرے کو۔ برا ہے نام فاسق، ایمان لانے کے بعد (ان گناہ کے کاموں کی وجہ سے)۔ جو کوئی توبہ نہ کرے وہی ظالم ہیں۔" الحجرات 49:11
یہ اس فتنے کی ایک شکل ہے جسکے متعلق قرآن کا اعلان ہے:
وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚترجمہ: "فساد قتل سے بڑا (جرم) ہے"۔ البقرۃ 2:191
یاد رہے! کہ دین کے نام پر کیا جانے والا ہر وہ عمل جو ملت اسلامیہ میں انتشار پھیلائے، فساد کے زمرہ میں آتا ہے۔ فتنہ کا لفظ قرآن میں بھی متعدد مقامات پر استعمال ہوا ہے اور درج ذیل حدیث بھی اسکی وضاحت کے لئے کافی ہے۔
" صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یہ دعا کرتے تھے:
اللهمَّ إني أعوذُ بك من فتنةِ النارِ ومن عذابِ النارِ، وأعوذُ بك من فتنةِ القبرِ، وأعوذُ بك من عذابِ القبرِ، وأعوذُ بك من فتنةِ الغِنَى، وأعوذُ بك من فتنةِ الفقرِ، وأعوذُ بك من فتنةِ المسيحِ الدجَّالِ ۔
(صحیح البخاری: 6376)
ترجمہ:"اے اللہ میں جہنم کے فتنے اور عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور میں قبر کے فتنے اور عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اور میں مالداری اور فقیری کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اورمیں مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں"۔
پھر کرپشن کیسے ختم ہو؟
1۔قرآن یوسف علیہ السلام کے قصہ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ نکتہ بتاتا ہے کہ غلط راہ پر چلنے سے روکنے کے لئے اچھے حالات کار اور ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ یہ صاحب اختیار یا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کے اندراسکا کما حقہ اہتمام کرے تا کہ کرپشن کی طرف رجحان ہی نہ ہو۔ ملاحظہ کریں؛
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَن نَّفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
ترجمہ:"اورپھسلایا اس عورت نے جسکے گھر میں (یوسف علیہ السلام) تھے اس کے جی سے اور دروازے بند کر دئے اور کہنے لگی جلدی کر۔۔ کہا (یوسفؑ) نے؛ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ وہ (مالک) میرا محسن ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ یقینا بے انصاف فلاح نہیں پاتے"۔ یوسف 12:23
2-غلط الزام تراشی اور مقدمہ بازی کے سد باب کے لئے ریاست مدینہ کا قانون دیت اور قصاص تو واضح ہے ہی لیکن درج ذیل آیت بھی اسکا بنیادی اصول بیان کرتی ہے؛
منْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ - 40:40
ترجمہ: "جو کوئی گناہ کرے تو اسکا بدلہ نہیں ہے مگر اتنا ہی۔ اور جو کوئی نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو اسے جنت میں داخل کیا جائے گا اور رزق دیا جائے گا بغیر حساب"۔ غافر 40:40
اس اصول کے مطابق ضروری ہے کہ بغیر ثبوت الزام لگانے والے کو وہی سزا دی جائے جو الزام کے نتیجہ میں ملزم نے بھگتی۔ یہ اصول اس فساد کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو ریاست کو بازیچہ ء اطفال بنانے کا باعث بنتا ہے۔ کسی پر الزام لگا کراسے پکڑوا دینا، تذلیل کرنا اور اسکی عزت، وقار اور آرام کو خاک میں ملا دینا معمول بن چکا ہے۔ اسکے بعد عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دینا تو ٹھیک ہے لیکن اس تمام اذیت کا ازالہ ناگزیر ہے۔
قرآن نے جھوٹے الزامات لگانے والوں کی شہادت قبول نہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ کیا اس سے زیادہ بہتر کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟ ہمیں تو ریاست مدینہ کے ساتھ کرپشن کا لفظ لکھتے ہوئے بھی گناہ کا احساس ہو رہا ہے کیونکہ وہاں ایسا ماحول مہیا کیا گیا تھا جس میں اس لعنت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ رسول خدا ﷺ کے دور میں چوری کرنے والی عورت کا تزکرہ تو ملتا ہے لیکن کرپشن کا نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر دو چادرکا الزام تو لگتا ہے لیکن تحقیر کے ساتھ نہیں۔ اسی وقت وضاحت مل جاتی ہے اوراسے تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ جب قحط کے سبب بھوک عام ہو جاتی ہے تو ہاتھ کاٹنے کی سزا تک معطل کر دی جاتی ہے۔
یا اللہ۔!۔۔۔۔۔اس مبارک ریاست مدینہ کی ادنیٰ جھلک ہی اس وطن عزیز میں دکھا دے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل ہونے سے بچا جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اور پھر بھی دعویٰ کرتے ہیں اصلاح کرنے کا۔۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ -ترجمہ:"اور جب کہا جائے ان سے کہ فساد نہ کرو ملک میں تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں"۔ بقرۃ 2:11۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین
Comments