top of page

رزق حلال |Rizq e Halal series (Part-9)


Read to ensure that you are consuming Halal

رزق حلال کے ثمرات


گزشتہ صفحات میں بیا ن کیا جا چکا ہےکہ رزق حرام بہت سے برے اثرات کا حامل ہے۔ جن سے معاشرہ انفرادی اور مجموعی طور پر متاثر ہوتا ہے۔ حلال اسکا اُلٹ ہونے کی وجہ سے ان تمام برے اثرات سے محفوظ و مبرا٫ ہوتا ہے جو حرام کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مزید برآں حلال کے ساتھ بے شمار خصوصی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں جن میں سے چند دنیاوی واُخروی فوائد وثمرات ذیل میں بیان کئے جا رہے ہیں۔


۱- اطمینان قلب:

محنت مزدوری کر کے حق حلال کا رزق کمانے والا جس سکون و اطمینان سے فیضیاب ہوتا ہے وہ راحت حرام مال کمانے والے کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ رشوت اور دیگر حرام ذرائع سے حاصل کردہ مال اگرچہ زندگی میں چہل پہل پیدا کر دیتا ہے لیکن یہ عارضی ہوتی ہے۔ یہ بلبلہ جس طرح پیدا ہوتا ہے ویسے ہی فوراً ٹوٹ جاتا ہے۔ اس مختصر وقت میں بھی یہ دولت اپنے مالک مجازی کو سکون قلب نہیں دے پاتی جسکا وہ طالب ہوتا ہے۔ بیماری، مصائب ، خوف اور طمع اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ اسکے مقابلہ میں ایک غریب مزدور جو دن کو محنت مزدوری کر کے شام کو اپنے اور گھر والوں کے لئے کھانے کا انتظام کرتا ہے کہیں زیادہ سکون اور اطمینان کے ساتھ فرش پر ہی گہری نیند سو جاتا ہے۔ بے شک یہ بہت بڑی نعمت ہے۔

سورۃ ا لقریش کی درج ذیل آیت ملاحظہ ہو:

الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ - 106:4 القریش

ترجمہ:"اُس نے کھانا دیا اُنکو بھوک میں اور امن دیا ڈر میں۔"


یہاں کھانے سے مراد حلال رزق ہی ہےکیونکہ اللہ کی طرف حرام رزق کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ خوف کئی قسم کا ہے جن میں بھوک وافلاس کا خوف بھی شامل ہے۔ پس یہ حقیقت ہے کہ سکون قلب کے حصول کے لئے رزق حلال کا اہتمام رکھنا ضروری ہے۔


۲-عزت ووقار میں اضافہ:

رزق حلال پر مداومت کرنے والا شخص معاشرے میں خاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حرام سے بچنے کی کوشش کرنے کے سبب اسکے مخالفین بھی اس پر اعتبار کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح اسے اور بھی عزت و نیک نامی نصیب ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالٰی بھی غائبانہ طور پر ایسے شخص کی امداد فرماتے ہیں۔ تاریخ اسلام کے قابل فخر واقعات میں سے صرف دو ذیل میں بیان کئے جا رہے ہیں جو اس حقیقت کی بڑی عمدہ مثال ہیں۔


ہم جانتے ہیں کہ خاتم الانبیا٫ ﷺ نے نبوت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد تیرہ برس مکہ میں گزارے۔ آپکی امین اور صادق ہونے کی شہرت کے سبب غیر مسلم بھی آپ ﷺ کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔ یہ سلسلہ اس تیرہ سالہ مکّی دور میں بھی جاری رہا۔یہاں تک کہ ہجرت کے موقع پر آپ ﷺ نے حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑا تا کہ وہ لوگوں کی امانتیں انکو واپس کر دیں۔

دوسرا واقعہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کا ہے۔ آپ ؓ کا دستور تھا کہ کہ رات کے وقت مدینہ کی گلیوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات جاننے کی کوشش کرتے ۔ اگر کوئی غریب حاجتمند نظر آتا تو خود حسب ضرورت اسکی امداد فرماتے۔ ایک روز زیادہ چکر لگانے کے باعث تکان محسوس کی تو ایک مکان کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ اس گھر کے مکین باتیں کر رہے تھے ۔ آپ نے ایک عورت کی آواز سنی جو اپنی بیٹی سے دودھ میں پانی ملانے کا کہہ رہی تھی۔

"ماں میں ایسا نہیں کروں گی" لڑکی نے جواب دیا۔ " کیا آپ جانتی نہیں کہ امیرا لمؤمنین نے ایسا کرنے سے منع کر رکھا ہے؟"

"ہاں میں جانتی ہوں لیکن اس وقت امیرا لمؤمنین اور انکے سپاہی تو تمہیں نہیں دیکھ رہے" ، ماں نے کہا۔

"تُف ہے مجھ پر، اگر میں لوگوں کے سامنے تو امیرالمؤمنین کا حکم مانوں اور بعد میں اسکی خلاف ورزی کروں۔" لڑکی نے کہا۔

ماں اس بد دیانتی پر تلی ہوئی تھی تاکہ زیادہ پیسے کما سکےاسلئے اس نے لڑکی کو پانی ملانے پر آمادہ کرنے کی کافی کوشش کی لیکن لڑکی نہ مانی۔

حضرت عمرؓ نے سب کچھ سنا اور اس مکان کے دروازے پر نشان لگا کر چلے گئے۔ اگلے روز آپؓ نے اس مکان کے مکینوں کے متعلق دریافت فرمایا تو پتہ چلا کہ وہاں ایک بیوہ اپنی جوان بیٹی کے ہمراہ رہتی ہے۔ چنانچہ آپؓ نے اپنے بیٹے عاصم کی شادی اس لڑکی سے کرادی۔

اس طرح غریب لڑکی اپنی دیانتداری اور رزق حلال کے حصول کے لئے کوشش کی بدولت خلیفہ٫ وقت کی بہو بن گئی۔ پھر یہی نہیں بلکہ بعد میں اس نیک لڑکی کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جو عبدالعزیز بن مروان سے بیاہی گئی اور عبدالعزیز کے بیٹے عمر کی ماں بنی۔ یہی عمر بڑے ہو کر پانچویں خلیفہ٫ راشد عمر بن عبدالعزیز کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ سب رزق حلال کے سبب اللہ تعالٰی کی جانب سے غائبانہ امداد کا شاخسانہ تھا۔ جس نے غربت وافلاس اور کسمپرسی کے گڑھے سے نکال کر اس لڑکی کو دولت و ثروت کے ساتھ عزت و وقار سے بھی نوازا۔


۳-صبر و قناعت:

رزق حلال سے انسان کو قناعت جیسی عظیم الشّان دولت نصیب ہوتی ہے۔ ایسے شخص میں حرص و لالچ ختم ہو جاتی ہے۔ وہ دوسروں کے مال میں نظر رکھنے کی بجائے اپنی محنت و مشقّت سے کمائے ہوئے حلال رزق کو کافی سمجھنے لگتا ہے۔ اور اپنی تمام ضروریات زندگی کو اسی محدود مگر پاک کمائی سے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح وہ فی ا لحقیقت پرائے مال سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔


۴-برکت:

جب انسان رزق حلال پر قناعت کر لیتا ہے تو اللہ تعالٰی اسکے رزق میں برکت پیدا فرما دیتا ہے۔ پرانے وقتوں کے لوگ جانتے ہیں کہ اکثر سرکاری ملازمین یا تاجر اپنی انتہائی محدود آمدن سے ایک لمبے چوڑے کُنبے کا بڑے احسن طریقے سے خرچ چلاتے تھے۔ جس میں انکی خوراک، لباس، رہائش اور تعلیم کے علاوہ غمی خوشی ہر قسم کے اخراجات شامل ہوتے تھے ۔ آج بھی کئی ایسے نیک طینت لوگ مل جاتے ہیں جنکے طفیل حرام کھانے والے لوگ بھی عذاب الٰہی سے بچے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وسیع اخراجات کا محدود آمدن میں پورا کرنا اس برکت کی وجہ سے ہوتا ہے جو اللہ تعالٰی نے رزق حلال میں رکھ دی ہے۔


وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ - 14:7 ابراہیم

ترجمہ:"اور جب سُنا دیا تیرے رب نے کہ اگر حق مانو گے تو اور دوں گا تم کو ۔ اور اگر نا شکری کرو گے تو میری مار سخت ہے۔ "


یہ آیت مبارکہ بتاتی ہے کہ اللہ کا شکر گزار بندہ اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ اس پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دے ۔ یہاں یہ جان لینا ضروری ہے کہ اللہ کی شکر گزاری صرف یہ نہیں کہ زبان سے "شکر اللہ" کے الفاظ ادا کر دئے جائیں بلکہ حقیقی شکر گزاری یہ ہے کہ انسان اللہ کے بتلائے ہوئے طریقوں کے مطابق مال کمائے اور اسی کے احکامات کے مطابق اس حلال مال کو خرچ کرے۔ جب انسان اللہ کے دئے ہوئے اعضائے جسمانی کا صحیح استعمال کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی شکر گزاری ہی ہے۔ ان اعضا٫ کو استعمال میں لا کر حلال رزق کمانا مزید شکر گزاری ہے۔ اسی لئے اللہ نے ایسے لوگوں کو مزید دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس وعدہ کے ایفا ٫ ہونے کے بھی دو طریقے ہیں ۔ اوّل یہ کہ اسے حقیقی معنوں میں زیادہ مال دیا جائے اور دوم یہ کہ محدود حلال روزی میں برکت عطا کر دی جائے۔


۵-قیام اسباب:

جب کوئی شخص حرام سے بچتا ہے اور صرف رزق حلال ہی سے استفادہ کرنے کا پختہ عزم کر لیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالٰی بھی اس کی غائبانہ مدد کرتے ہیں ۔ دوسرے طریقوں کے علاوہ ایک طریقہ امداد کا یہ بھی ہے کہ اللہ عزوّجل اپنے اس نیک بندہ کے لئے رزق حلال کے ایسے راستے کھول دیتا ہے جو اس شخص کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ فرمان الٰہی ہے۔


وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا - وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا – 65:2-3 الطلاق

ترجمہ:"اور جو کوئی ڈرتا رہے اللہ سے ۔ وہ نکال دے اسکے لئے راستہ اور روزی دے اسکو جہاں سے اسکو خیال تک نہ ہو۔اللہ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ اللہ نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔"


۶- رزق حلال باعث نجات ہے:

اگرچہ اکتساب مال دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لئے کیا جاتا ہے لیکن جب یہ مال اللہ کے دئے گئے احکامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کمایا جائے تو یہ عین عبادت ہے۔ ایسا شخص روز قیامت سرخرو ہو گا۔

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ - 2:212 البقرۃ

ترجمہ:"رجھایا ہے منکروں کو دنیا کی زندگی پر اور ہنستے ہیں ایمان والوں سے ۔ اور پرہیز گار ان سے اُوپر ہونگے قیامت کے دن اور اللہ روزی دے جس کو چاہے بے حساب۔"


یعنی دنیا میں مال کو دیکھ کر کسی شخص کی اللہ کے ہاں مقبولیت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ۔ کیونکہ دنیا کے اندر اللہ مشرکوں کو انکی سرکشی میں اضافہ کے لئے بھی بعض اوقات وسیع مال دیتا ہے ۔ ایسے لوگ اپنے مال پر ریجھنے لگتے ہیں اور ایمان والوں کی غربت اور بے کسی کا مذاق اڑانے لگتے ہیں ۔ لیکن قیامت کے دن صرف ایمان والے ہی برتر ہونگے جنہوں نے اللہ تعالٰی کے احکامات اور منشا٫ کے مطابق مال کمایا اور خرچ کیا ہو گا۔ اللہ ایسے لوگوں کو نجات دے کر خاص نعمتوں سے نوازے گا جو کافروں اور نافرمانوں پر انکی برتری کا واضح ثبوت ہو گا (انشا٫اللہ تعالٰی)۔

TO BE CONTINUED........


Click here to VIEW this book.

Click here to DOWNLOAD this book.

Comments


© 2019 by Anayat Bukhari

bottom of page