حرام کھانے والے میں یہ بیماری دو سبب سے ہے۔ اوّل یہ کہ حرام کھانے کے بے شمار نقائص جاننے کے باوجود اسے ترک نہ کرنا خود عقل کے فُقدان پر دلالت کرتا ہے۔ دوسرے نشہ آور حرام اشیا٫ کا استعمال حقیقتاً عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ جسکی وجہ سے انسان برے بھلے میں فرق کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ اسکی تفصیل بعض دوسرے حرام افعال کے ساتھ قرآن مجید میں یوں مذکور ہے۔
ترجمہ:"اے ایمان والو؛ یہ شراب اور جوا٫ اور پانسے گندے کام ہیں شیطان کے۔ سو ان سے بچتے رہو۔ شاید تمہارا بھلا ہو۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ ڈالے تم میں دشمنی اور بیر شراب کے ذریعہ اور جؤے سے اور روکے تم کو اللہ کی یاد سے اور نماز سے ۔ پھر اب تم باز آؤ گے؟"
ان آیات میں واضح طور پر دوسرے حرام کاموں کے ساتھ شراب اور جؤے کو بھی منع کر دیا گیا ہے۔ اور پھر وضاحت فرما دی کہ یہ ایسے کام ہیں جنکے ذریعے شیطان تمہاری عقلوں پر پردہ ڈال کر تمہیں سوچ بچار سے عاری کر دیتا ہے۔ پس تم آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے لگتے ہو۔ مزید یہ کہ ان اشیا٫ کے سبب تم اپنے خالق اور مالک کو بھی بھول بیٹھتے ہو کجا کہ اسکے احکامات پر عمل کرنا۔ اسلئے سوچ لو کہ شیطان کے کہنے پر عمل کرو گے یا اللہ کی اطاعت کر کے کامیابی کا راستہ اختیا کرو گے۔
یہ روزمرّہ کا مشاہدہ ہے کہ شراب پینے والے گلیوں اور سڑکوں پر نکل کر اخلاق سے گری ہوئی حرکات کرنے کے علاوہ غل غپاڑہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ چرس، افیون ، بھنگ وغیرہ پینے والوں کا دماغ بھی ایک خاص نشہ میں چُور رہتا ہے۔ اس سبب سے وہ زندگی کے معمولات کو پورا نہیں کر پاتے۔ ہیروئن پینے والوں کا دماغ تو بالکل ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت قلیل عرصے میں وہ معاشرے کا مفلوج ترین حصہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ انکی عقل اس قدر زائل ہو جاتی ہے کہ وہ انتہائی ذلیل حرکت کرنے سے بھی باز نہیں رہ سکتے۔ ایسی حرکت جو کوئی ہوشمند شخص کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
سگریٹ، پان، بیڑی ، حقّہ ، نسوار وغیرہ بھی اسی صنف کی چیزیں ہیں لیکن ان سے عقل زائل نہیں ہوتی۔ البتہ نشہ کرنے والوں کو ایک خاص راحت بخشتی ہے۔ پس گو کہ یہ حرام نہیں لیکن مکروہات میں شامل ہیں۔ البتہ عمومی مشاہدہ ہے کہ چرس ، ہیروئن اور شراب جیسا نشہ کرنے والے لوگ پہلے پہل یہی تمباکو مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ بنیادی نشہ ہونے کے سبب ان پر بھی پابندی لگانا چاہئے۔ ایک حدیث کے مطابق ہر نشہ آور شئے خمر ہے جو کہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے۔
عن ابن عمر ؓ قال خطب عمرُ ؓ علٰی منبر رسول اللہﷺ فقال انہ قد نزّل تحریم ا لخمر وھی من خمسۃ اشیا٫ : العنب ، و ا لتمر ، والحنظۃ وا لشعیر وا لعسل والخمر ما خامر العقل۔ صحیح ا لبخاری (کتاب الاشربہ)
ترجمہ:"ابن عمرؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ نے نبیﷺ کے ممبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ شراب کی حرمت نازل ہو چکی ہے اور وہ پانچ چیزوں کی ہے۔ انگور، کھجور، گندم، جو اور شہد۔ اور خمر وہ ہے جو عقل کو ختم کر دے۔"
اس حدیث میں حضرت عمر فاروق ؓ نے خمر کی واضح تعریف فرما دی کہ ہر وہ شئے جو عقل زائل کرنے کا باعث ہو اسی لفظ میں اور اسی حکم حرمت کے تحت آتی ہے۔ یہان یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حدیث میں خمر کے پانچ چیزوں سے بنائے جانے کا ذکر ہے اسلئے اگر انکے علاوہ کسی چیز سے بنائی جائے تو وہ جائز ہو گی۔ یہ حدیث کی غلط تاویل ہے۔ عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا جو فرمان بیان کیا اسکا مدعا شراب کی ان تمام مروّ ج اقسام کو وضاحت سے بیان کرنا تھا تا کہ ہر شخص ہر قسم کی نشہ آور شئے سے پر ہیز کرے۔ خود اس حدیث میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ہر نشہ آور اور عقل کو زائل کرنے والی چیز حرام ہے۔ اس کی مزید وضاحت اسی حدیث کے آخری حصّہ سے ہوتی ہے کہ راوی نے سوال کیا:
قال قلتُ یا ابا عُمرونشیٔ یقعُ با لسند من الذُر قال لم یکن علٰی عہد ا لنبیﷺ او قال عہد عمرؓ ۔ صحیح ا لبخاری (کتاب ا لاشربہ)
ترجمہ:"میں نے شعبی سے سوال کیا کہ اے ابا عمر، سندھ میں کچھ شراب چاولوں سے بنائی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے عہد میں نہیں تھا یا یہ کہا کہ حضرت عمر ؓ کے عہد میں نہیں تھا۔"
لہٰذا یہ شبہ خود بخود رفع ہو جاتا ہے اور بنیادی اصول کے مطابق ہی عمل کیا جائے گا کہ ہر نشہ آور شئے جو عقل کو زائل کرنے کا سبب بن سکتی ہے وہ خمر ہے ۔ اور خمر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
اس طرح جب یہ بات طے ہے کہ نشہ آور حرام اشیا٫ عقل کو زائل کرنے کا باعث بنتی ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایک خاندان میں اگر ایک شخص اسکا عادی ہے تو وہ اس خاندان کے لئے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ پھر پورے معاشرے میں جس قدر نشہ بازوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا اسی قدر اس معاشرے میں فعّال افراد کی کمی ہوتی جائے گی اور مفلوجوں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔جو کہ معاشرہ کی ترقی و تمدن کے لئے بہت سنگین مسئلہ ہے۔
۱۰- بزدلی کا قیام:
حرام خوری اور دنیا کی لالچ انسان کو بزدل بنا دیتی ہے۔ اسکا فلسفہ یہ ہے کہ حرام خوری دنیا سے محبت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جتنی زیادہ دنیا سے محبت ہو گی اتنی ہی زیادہ مال کی طمع ہوتی ہے ۔ چنانچہ مال کی طمع میں انسان حلال اور حرام کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ پھر یہ بھی ظاہر امر ہے کہ حلال تک رسائی مشکل اور محنت طلب ہے جبکہ حرام نہایت آسانی سے اور وافر مقدار میں ملتا ہے۔ اس حقیقت کی بنیاد بھی اللہ کی جانب سے بندہ کی آزمائش ہے جیسا کہ پہلے بھی قرآن مجید سے ایک آیت نقل کی جا چکی ہے کہ مال اور اولاد آزمائش ہیں ۔ پس دنیا کی محبت میں انسان زیادہ مال جمع کرنے کی خاطر حرام کا رُخ کرتا ہے۔ جوں جوں مال کی مقدار بڑھتی ہے اسی قدر انسان کو اپنی جان زیادہ عزیز ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ آخر اُس نے یہ دولت اپنی ملکیت بڑھانے کے لئے اکٹھی کی ہے ۔ جب جان ہی نہ رہے گی تو دولت کس کام کی ۔ اسی لئے ایسا حرام خور کسی بھی ایسے ماحول سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے جہاں اسکی زندگی کو کوئی تکلیف پہنچنے کا احتمال ہو۔ حتٰی کہ جہاد جیسی افضل عبادت میں بھی شرکت گوارا نہیں کرتا۔ سورۂ اٰل عمران کے رکوع نمبر چودہ میں سُود کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ اس آیت سے قبل غزوۂ اُحد کے بارے میں آیات ہیں۔ چنانچہ مفسرین کرام نے اسے یہاں بیان کرنے کے مقاصد میں لکھا ہے کہ سُود کھانے سے نامردی پیدا ہوتی ہے۔ آیت درج ذیل ہے:
ترجمہ:"اے ایمان والو؛ مت کھاؤ سُود دُونے پر دُونا اور ڈرو اللہ سے۔ شاید تمہارا بھلا ہو۔"
یہ نامردی دو سبب سے پیدا ہوتی ہے۔ اوّل یہ کہ حرام کھانا اللہ کی نافرمانی ہے ۔ جو شخص حرام کھا کر اللہ کی نافرمانی کرتا ہے وہ جہاد جیسے موقع پر اپنے امیر یا کمانڈر کی اطاعت کیسے کر سکتا ہے؟ جبکہ اسکی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہو۔ یہ طاعت کی کمی بزدلی کا سبب ہے۔ دوم یہ کہ سُود لینا کمال بخل ہے ۔ سُود خور نے جتنا مال قرض دیا وہ واپس لے لیا پھر اس پر زیادہ طلب کرنا اس واسطے کہ کسی غریب کا کام بن گیا ، انتہائی بخل ہے۔ پس جو شخص مال میں اس قدر بخل سے کام لے وہ جہاد میں جان کب دے سکتا ہے۔ چنانچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سُود خوری سے بزدلی اور نامردی پیدا ہوتی ہے۔
یہ تو سُود کا معاملہ تھا لیکن در حقیقت ہر قسم کی حرام خوری کا نتیجہ اسی بزدلی کی صورت میں نکلتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی افسر رشوت لیتا ہے یا کوئی شخص زبردستی کسی پر ظلم کر کے مال چھین لیتا ہے۔ تو ایسے لوگوں کا دل مطمئن نہیں رہتا بلکہ وہ ہر وقت ایک خاص دھڑکے کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں میرے اس فعل بد کا راز فاش نہ ہو جائے جو میری بدنامی و رسوائی کا باعث بن جائے۔ اسی لئے یہ مثل مشہور ہے کہ "چور کی داڑھی میں تنکا"۔ کسی محفل میں ذرا سی اس موضوع پر بات ہو جائے ایسا شخص صفائیاں پیش کرنے لگتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ حرام کے مال سے جائداد خریدنے والے اہلکار کسی قریبی رشتہ دار یا تعلق دار کے نام پر خریدتے ہیں ۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر پکڑا بھی جاؤں تو جرم ثابت نہ ہو سکے اور مال بھی بحق سرکار ضبط ہونے سے محفوظ رہے۔
منشیات استعمال کرنے والے حرام خور کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ۔ ایسے لوگ عموماً بڑے صلح جُو واقع ہوتے ہیں۔ اگر اُن سے کوئی زیادتی بھی کر دے تو اسے ٹوکنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے کجا کہ سامنے آ کر انتقام لیں۔ اخلاقاً تو یہ بات بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن بہادری اور جرأت کے اعتبار سے یہ بُری خصلت ہے۔ عام طور پر معاشرے کے اندر یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نشہ کرنے والے لوگ نشہ کا خرچہ اٹھانے کے لئے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ اگر چوری کرتے ہوئے دیکھ لئے جائیں اور انہیں للکارا جائے تو وہ بے طرح خوفزدہ ہو کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں ۔ دیگر چور اور ڈاکوؤں کی طرح للکارنے والے کے مدّ مقابل آنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ حرام خوری خواہ کسی صورت میں بھی ہو ، بزدل بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس طرح یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ معاشرے میں جتنی زیادہ تعداد حرام خوروں کی ہو گی، اتنی ہی زیادہ بزدلی اور نامردی پائی جائے گی۔ ایسا معاشرہ معمولی سے معمولی چیلنج کا سامنا کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ اوراسی گریز کے سبب اقوام عالم کے مقابلہ میں ہر میدان میں پیچھے ہی رہتا ہے۔ علم، سوچ، ایجاد، تمدن یا جہاد کوئی میدان لے لیجئے، گراف میں تنزّل ہی نظر آتا ہے۔
۱۱- تسلسل ِ حرام:
حرام خوری ایک ایسا گناہ ہےجس کا اثر نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث پاک سے بخوبی ہو جاتی ہے۔
قال ابو ھریرۃ ؓ اُ تی رسول اللہ ﷺ لیلۃ اُسری بہٖ با یلیا٫ بقدحین من لبن وّ خمرفنظر الیہما فا خذ ا للبن ۔ قال جبریل علیہ ا لسلام الحمد للہٖ الذی ھداک للفطرۃ لو اخذت ا لخمر غوت امتک۔ صحیح البخاری (کتاب ا لتفسیر)
ترجمہ:" ابو ھریرۃ ؓ فرماتے ہیں کہ جس رات کو رسول اللہ ﷺ بیت المقدس تشریف لے گئے، آپ ﷺ کے سامنے دو پیالے پیش کئے گئے۔ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ۔ آپﷺ نے دونوں کی طرف دیکھا اور پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ حضرت جبرائیلؑ نے عرض کیا ؛ الحمد للہ ؛ اللہ نے آپ ﷺ کی فطرت کی طرف رہنمائی کی ۔ اگر آپ ﷺ شراب کا پیالہ ہاتھ میں لے لیتے تو آپ کی اُمت گمراہی میں گرفتار ہو جاتی۔"
یعنی شراب جیسی حرام شئے کا اثر آپ ﷺ کی اُمت پر بھی پڑتا۔ اسی نسبت سے قرآن مجید کے اندر یہود کے لئے ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
ترجمہ:"بڑے جاسوس جھوٹ کہنے کو اور بڑے حرام کھانے والے۔۔۔۔"
اب یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آیا تمام یہود ہی حرام کھانے والے تھے؟ اگر تھے تو پھر بات صحیح ہے لیکن اگر تمام ہی اس عیب میں ملوّث نہ تھے تو پھر اللہ تعالٰی کی ذات سے یہ بات بعید ہے کہ وہ سب کو ایک ہی لا ٹھی سے ہانکے، کیونکہ وہ عادل ہے۔ پس اس صورت میں اس آیت کی توجیہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی کہ اُنکے بڑے حرام کھاتے تھے خواہ کسی بھی شکل میں ہو۔ پھر اسکا اثر اُنکے بچوں میں در آتا تھا اور یوں سب ہی حرام کھانے والے کہلائے۔ رہی بات جھوٹ کہنے کی تو یہ ظاہر ہے۔ کیونکہ ہر ایسی بات جو بغیر تحقیق کے آگے بیان کر دی جائے، انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے۔ یہ بات جناب ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے۔
چنانچہ اگر اس معاملے کا تجزیہ سائنسی بنیادوں پر کیا جائے تو بھی یہ بات درست ہی معلوم ہوتی ہے۔ خصوصاً اس حقیقت کی موجودگی میں کہ سائنس اور اسلام میں کوئی تفاوت نہیں۔ پس جب کوئی شخص حرام مال کھاتا ہے تو اسکے جسم کی نشوونما اسی غذا سے ہوتی ہے اور اسکے جسم میں حرام عنصر داخل ہو جاتا ہے۔ جسم کا گوشت پوست ہو یا اس میں دوڑنے والا خون سب ہی اس حرام غذا سے متاثر ہوتے ہیں۔ پھر اس خون سے پیدا ہونے والا نطفہ بھی اس اثر کو لئے ہوئے نکلتا ہے۔ جب یہ نطفہ ازدواجی تعلقات کے نتیجہ میں ماں کے رحم میں منتقل ہوتا ہے تو حرام کا اثر اُدھر جا پہنچتا ہے۔ پھر اس سے پیدا ہونے والا بچہ اس اثر سے پاک کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ اثر اگلی پشت میں کم ہوتا جاتا ہے اگر حرام سے پرہیز کیا جائے۔
اس چیز کی زندہ مثال ہم آئے دن ملاحظہ کرتے رہتے ہیں ۔ ماں باپ کی عادات و اطوار اور جسمانی مناسبت کا بچے میں ظاہر ہونا اور پھر آگے انکی اولاد میں چلے آنا زندہ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ جدید دور کی "جینیاتی سائنس" اس کا اعتراف کر چکی ہے۔ مختلف خاندانی بیماریوں اور جسمانی خصوصیات کا ایک نسل میں تسلسل بھی اسی عمل کے تحت آتا ہے۔ چنانچہ جانداروں میں بشمول انسان کے تولیدی جرثوموں میں پائے جانے والے جینیاتی ذرّوں کے ذریعے والدین کی کئی خصوصیات اولاد میں منتقل ہو جاتی ہیں۔ ایک خاندان کے افراد کی آپس میں شادیاں ان خصوصیات کو منتقل کرنے کے علاوہ مزید پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبّی ماہرین خاندان سے باہر شادیاں کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جس سے کئی موروثی بیماریوں کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔
وہ دن دور نہیں جب اسی نہج پر چلتے ہوئے طبّی سائنسدان حرام خوری کے "جینز" بھی دریافت کر لیں اور انکے ذریعے اس حرام خوری کے اثرات نسل در نسل منتقل ہونے کی تصدیق بھی کر دیں۔ موروثی بیماریوں کی طرح یہ خصلت بد بھی خاص جینیاتی ذرّوں کی شکل میں تولیدی جرثوموں کے ساتھ اگلی نسل میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اگر اسے کنٹرول نہ کیا جائےتو یہ بیماری بھی مستقل شکل اختیارکر لیتی ہے اور پورے خاندان میں پھیل جاتی ہے۔اس تجزیہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر حرام خوری کے اثرات اسی رفتار سے معاشرہ میں پھیلتے رہے تو ایک دن معاشرے کا ہر فرد حرام خور ہو چکا ہو گا ۔ اسکے بعد خدانخواستہ ہمارا معاشرہ بھی بنی اسرائیل کے یہود کی طرح "اکّالون للسحت" یا بڑے حرام خور کے لقب سے ملقب ہو گا۔
Comments