فضول خرچیاں انسانی زندگی کو اتنا سہل بنا دیتی ہیں کہ انسان دُنیا کی لذّت میں بھرپور طور پر محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کی تمام تر توجہ حصول دولت کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے اور دنیا کی ہر نعمت سے لطف اندوز ہونا ہی اسکی منزل مقصود ہو جاتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی اس کمزوری کا اسے احساس دلایا ہے تا کہ وہ اس رویّہ سے باز آ جائے ۔ فرمان الٰہی ہے۔
ترجمہ:"اور کھاتے ہو مردہ کا مال سمیٹ کر سارا۔ اور پیار کرتے ہو مال کو جی بھر کر۔"
مال کمانا عیب نہیں ۔ نہ ہی دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرنا گناہ ہے۔ بلکہ اللہ تبارک وتعالٰی کے احکامات کو پس پشت ڈال کر حصول مال اور حبّ دنیا اختیار کرنا باعث وبال ہے۔ دنیاوی معاملات میں ایسا الجھ جانا جو آخرت کی یاد سے غافل کر دے تباہی کا موجب ہے۔ یہی چیز اس آیت میں بیان ہوئی ہے کہ اے انسان دنیا اکٹھی ضرور کر لیکن یہ حقیقت نہ بھول کہ جس طرح آج تو وراثت کے حاصل ہونے پر پھولے نہیں سما رہا ، قانون قدرت کے مطابق کل تیری موت کے بعد تیرا یہی سمیٹا ہوا مال تیرے وارث آپس میں تقسیم کرنے کے لئے بے تاب ہوں گے۔ اس مال کے حصول کے لئے تیری جدّوجہد رائیگاں چلی جائے گی۔ پس اُتنا مال جمع کر جو تیری زندگی کو باوقار انداز میں گزار دینے کے لئے کافی ہو۔ اس سے زیادہ کی طمع بیکار ہے۔ مال سے اتنی محبت نہ رکھ کہ تو اس سے جدا ہونے پر نادم ہو اور افسوس کا اظہار کرے ۔ اسی طرح کا مضمون ایک دوسری آیت میں ذرا وضاحت سے بیان ہوا ہے۔
ترجمہ: " خرابی ہے ہر طعنے دیتے عیب چنتے کی۔ جس نے سمیٹا مال اور گن گن کر رکھا۔ خیال رکھتا ہے کہ اسکا مال سدا رہے گا اسکے ساتھ۔"
مال کی یہ محبت دنیا سے محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور انسان دنیا کی لذّتوں سے ہی باہر نہیں نکل پاتا۔ حتٰی کہ کہ اچانک اسکی زندگی کا چراغ گل ہو جاتا ہے اور اسکا مال دوسرے لوگوں کے پاس جا پہنچتا ہے۔
۷- آخرت فراموشی:
دنیا کے ساتھ محبت کی زیادتی آخرت فراموشی پر منتج ہوتی ہے۔ یہ رزق حلال سے محروم شخص کو مزید گناہوں کی دلدل میں دھکیل دینے کا باعث بن جاتی ہے۔ اکتساب مال اور انفاق مال دونوں یا دونوں میں سے ایک پہلو بھی قیامت کے دن حساب کے خوف سے عاری ہوں تو وہ باعث ہلاکت ہے۔ اللہ تبارک وتعالٰی کا ارشاد ہے۔
ترجمہ:"کہتا ہے (انسان) میں نے مال کھپایا ڈھیروں ۔ کیا خیال رکھتا ہے کہ دیکھا نہیں اسکو کسی نے؟"
انسان کی نا سمجھی اور شیخی بگھارنے کی عادت کا بیان ہے کہ انسان بہت مال خرچ کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس میں دو قباحتیں ہیں ۔ اوّل یہ کہ اس کا یہ مال خرچ کرنا مالک کل کائنات کی ہدایات کے مطابق نہیں بلکہ اس نے یہ مال نام و نمود کی خا طر شادی بیاہ، ماتم، بسنت، آتشبازی اور دیگر عیّاشیوں میں خرچ کیا ہے۔ نہ کہ اللہ کے راستہ میں غریب و بے کس، لا چار و مجبور افراد کی مدد اور جہاد فی سبیل اللہ کے سلسلہ میں۔ دوم یہ کہ اس دعویٰ کے ذریعہ نا سمجھ انسان نے بالواسطہ طور پر حلال و حرام کی تمیز بالائے طاق رکھتے ہوئے بے تحاشہ مال کمانے کا اعتراف کر لیا ہے۔ لہٰذا اسکے دونوں فعل یعنی اکتساب مال اور انفاق مال قابل گرفت ہیں۔ اس پر مزید ناسمجھی یہ کہ انسان ایسی دیدہ دلیری سے اللہ کی حدود کو توڑ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید وہ آنے والے خطرہ سے محفوظ ہو گیا ہے۔ اللہ ذوالجلال فرماتا ہے کہ درحقیقت ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالٰی جو کہ اُس سمیت ہر چیز کا خالق ہے ، جانتا ہے کہ انسان نے مال کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ چنانچہ وہ اپنی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دیگا۔ مزید وضاحت کے لئے اسی سورۃ کی اگلی تین آیات نازل فرمائیں۔
ترجمہ:"بھلا ہم نے نہیں دیں اُسے دو آنکھیں اور زباں اور دو ہونٹ اور سُوجھا دیں اسے دو گھاٹیاں۔"
یعنی "عُذر گناہ بد تر از گناہ"۔مال کو اپنی عیاشی کی نذر کر دینے کو وہ کافی سمجھتا ہے۔حالانکہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اُسے دو آنکھیں دی ہیں تا کہ وہ ہر معاملہ کی مکمل جانچ پڑتال کر کے اچھے برے اور حلال و حرام میں تمیز کر لے۔ پھر انسان کو زبان اور دو ہونٹ عطا کئے ہیں کہ اگر وہ خود کسی معاملہ کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتا تو سمجھ بُوجھ رکھنے والوں سے حلال و حرام کے بارے میں پُوچھ لے۔ پھر فرمایا کہ تمہارے لئے یہ اعضا٫ اسی طرح فائدہ مند ہیں جس طرح ماں کے دودھ کے دو پستان ۔ بچہ جو بالکل ہی بے بس اور لا شعور ہوتا ہے لیکن خالق کائنات اسے ایسی سمجھ سے بہرہ مند فرماتے ہیں کہ وہ لا شعوری طور پر ماں کے پستان سے اپنی خوراک حاصل کرنے کا طریقہ سمجھ جاتا ہے۔ بعض مترجمین نے گھاٹی کا ترجمہ ایمان اور کفر کی دو گھاٹیاں کیا ہے۔ دونوں مطالب ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں کہ جس طرح اے انسان تو اپنی خوراک کے لئے گھاٹیوں کے بارے میں سمجھ بُوجھ کو بروئے کار لاتا ہے ۔ اے انسان ،تو آنکھوں ، ہونٹوں اور زبان جیسے نفیس اعضا٫ جسمانی سے بھی حقیقی استفادہ کر اور حرام و حلال کی پہچان کو مال و رزق کے معاملہ میں ضروری سمجھ۔ آگے اللہ تعالٰی انسان کی کارکردگی کا نتیجہ بیان فرماتا ہے۔
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ - 90:11 البلد
ترجمہ:" سو نہ ہمک سکا گھاٹی پر"۔
یعنی آنکھوں اور زبان کی گھاٹی سے انسان کما حقہٗ فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حلال وحرام کو خلط ملط کر رہا ہے۔ اگلی آیات میں اللہ ربّ العزت نے کمال مہربانی سے آنکھ اور زبان کی گھاٹی کی تفصیل بیان فرما دی اور یہ تفصیل خصوصی طور پر مضمون زیر بحث یعنی مال کے حوالہ سے بیان فرمائی۔
ترجمہ:"اور تُو کیا بُوجھا کیا ہے وہ گھاٹی؟ چھڑانا گردنوں کا یا کھلانا بھوک کے دن میں بن باپ کے لڑکے کو جو ناطے دار ہے یا محتاج کو جو خاک میں رُلتا ہے۔"
گردن چھڑانا بھی دو مطالب بیان کرتا ہے ۔ ایک یہ کہ غلام آزاد کرانا اور دوسرے آگ سے اپنی گردن چھڑانا ہی آنکھ اور زبان کی گھاٹی کا استعمال ہے۔ یہ کامیابی یتیم و محتاج جیسے بے کس و مجبور لوگوں کی مالی امداد سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اگلی آیات میں اس نیک عمل کی قبولیت کے لئے ایمان کی شرط لاگو کر دی۔
ترجمہ:"پھر ہوا ایمان والوں میں۔ جو تقید کرتے ہیں صبر کا اور تقید کرتے ہیں رحم کھانے کا۔ وہ لوگ ہیں بڑے نصیب والے (داہنے والے)۔ "
ایمان کے ساتھ نیک اعمال جن میں مال کو حق داروں پر خرچ کرنا اور اکتساب مال میں حلال ذرائع پر اکتفا کرنا اور پھر محنت سے کمائی ہوئی حلال دولت کو محتاجوں کی بے کسی پر رحم کھاتے ہوئے خرچ کرنا شامل ہیں۔ ایسے لوگوں کو روز قیامت داہنے ہاتھ میں نامہ٫ اعمال دیا جائے گا جو کہ خوش نصیبی کی علامت ہے۔ اگلی آیات میں اس لائحہ عمل سے انحراف کرنے والوں کا انجام مذکور ہے۔
ترجمہ:"اور جو منکر ہوئے ہماری آیتوں سے وہ ہیں بد بخت (بائیں والے)۔ انہی کو آگ میں ڈالنا ہے۔"
یعنی رزق حلال کے بارے میں اللہ کے احکامات کو فراموش کر دینے والوں کے ہاتھ میں بائیں جانب سے نامہ٫ اعمال پکڑایا جائے گا جو کہ بد نصیبی کی علامت ہے۔ ایسے لوگوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔ (ربنا وقنا عذاب ا لنار۔ آمین)
سورۃالکہف میں اس مضمون کو دوسری طرح مختصر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق آخرت کے حساب کتاب کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کمانے کی خاطر کی جانے والی کوشش اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔
ترجمہ:"کیا ہم بتا دیں تم کو کہ کن کے اعمال گئے اکارت؟ جن کی دوڑ بھٹک رہی ہے دنیا کی زندگانی میں اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ خوب بناتےہیں کام۔"
پس جان لینا چا ہئے کہ دنیا سے محبت آخرت کے حساب کتاب سے غافل کرنے کا باعث ہے۔ دکاندار مال بیچتے ہوئے دھوکہ کرتے وقت آخرت کو فراموش کر دیتا ہے کیونکہ اسکے پیش نظر کم وقت میں زیادہ مال کمانا ہوتا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازم دنیا کی محبت میں زیادہ آسا ئشوں کے حصول کی خاطر رشوت لیتا ہے اور اسکے انجام کو بھول جاتا ہے۔ اسی طرح جملہ طبقات معاشرہ آخرت فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
۸-قطع رحمی:
مال کی طمع اور حرص رشتوں کا تقدس پامال کرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بھائی بہنوں اور یتیم بھتیجوں ، بھانجوں کا مال غنیمت سمجھ کر لوُ ٹا جانے لگتا ہے۔ مال کی لالچ میں دوست کے گلے پر بھی چھری پھیرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالٰی نے دوسروں کے مال میں نظر رکھنے سے منع کیا ہے۔
ترجمہ:" اور نہ پسار اپنی آنکھیں اس چیز پر جو برتنے کو دیں ہم نے ان بھانت بھانت لوگوں کو ، رونق دنیا کے جیتے انکے جانچنے کو۔ ۔ اور تیرے ربّ کی روزی دی بہتر ہے اور دیر تک رہنے والی۔"
کتنا بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے اس آیت میں کہ دوسرے کے مال پر للچائی نگاہ مت رکھو بلکہ اپنے رب کی طرف سے دی گئی حق حلال کی روزی کو کافی سمجھ کر اس پر قناعت کرو۔ یہی مال در حقیقت تمہارے لئے فائدہ مند ہے۔ دوسروں سے چھینا گیا مال تمہارے لئے فائدہ کی بجائے باعث وبال ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ مال جبر اور ظلم سے حاصل کئے جانے کے سبب گناہ ہے اور دوسرے کسی شخص پر ظلم کر کے اور اسکا حق چھیننے کی وجہ سے تمہارے اور اسکے درمیان اخوّت کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ لہٰذا یہ قطع رحمی کی ایک صورت ہے۔ جس سے مال چھینا گیا وہ کبھی بھی چھیننے والے کی بہتری کے لئے دعا گو نہیں ہو گا بلکہ اس سے کسی قسم کا تعلق رکھنا بھی پسند نہیں کریگا۔اسی سبب سے قرآن مجید نے مال اور اولاد کو آزمائش قرار دیا ہے۔
ترجمہ:"اور جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد جو ہیں آزمائش ہیں اور یہ کہ اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔"
مال اور اولاد کے دیگر آزما ئشی پہلوؤں کے ہمراہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کی ان چیزوں کے ساتھ اندھی محبت کئی لوگوں کے ساتھ تعلقات منقطع ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ کیونکہ بعض اوقات انسان ان چیزوں کے ساتھ اُلفت کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ نا انصافی اور ظلم کر دیتا ہے۔حالانکہ اسے جان لینا چا ہئے کہ نا انصافی قطع رحمی کی بنیاد ہے۔
خاتم ا لانبیا٫ ﷺ نے صلہ٫ رحمی اور رزق میں کشادگی کو درج ذیل حدیث میں یوں مربوط فرمایا ہے۔
عن انس بن مالک قال سمعتُ رسول اللہ ﷺ یقول من سرّہٗ ان یبسط لہٗ رزقہٗ او ینسا لہٗ فی اثرہٖ فلیصل رحمہٗ۔ صحیح ا لبخاری
(کتاب ا لبیوع)
ترجمہ:" انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ جس شخص کو پسند ہو کہ اسکے رزق میں وُسعت ہو یا اسکی عمر دراز ہو تو صلہ رحمی کرے۔"
یعنی رشتے داروں اور دوستوں سے حسن سلوک کرتے ہوئے اپنے مال میں سے انہیں کچھ عطا کرے، نہ کہ انکے مال میں نظر رکھے۔یہ ایسا فارمولہ ہے جس پر عمل کرنے سے دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ جب ہر شخص کو اسکا حق ملنے کے علاوہ حسن سلوک سے بھی فائدہ ملنے لگے تو آپس کی رنجشیں ختم ہو جاتی ہیں اور باہمی اُلفت اور محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اطمینان اور سکون کی فضا میں اللہ تبارک وتعالٰی بھی انکے مال و دولت اور زندگیوں میں برکت پیدا فرما دیتا ہے۔
Comentarios