![](https://static.wixstatic.com/media/a4fde3_b981f3d5357641af976f2162b4a2b6d2~mv2_d_6297_8910_s_4_2.jpg/v1/fill/w_980,h_1387,al_c,q_85,usm_0.66_1.00_0.01,enc_avif,quality_auto/a4fde3_b981f3d5357641af976f2162b4a2b6d2~mv2_d_6297_8910_s_4_2.jpg)
اختلاط رزق کے معاشرہ پر اثرات
رزق حلال کی اہمیت اور معاشرے میں رزق حلال کے بارے میں مختلف طبقات کا رویہّ بیان کرنے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حلال و حرام کی تمیز ختم ہونے سے معاشرہ پر اسکے برے اثرات کیسے غالب آ جاتے ہیں۔ یہ موضوع تشخیص مرض کا دوسرا مرحلہ ہے۔ اسکے مختلف پہلو ہیں جن میں سے اہم کو فرداً فرداً علیحدہ عنوانات کے تحت بیان کیا جا رہا ہے ۔ تاکہ بہتر طور پر وضاحت ہو سکے۔
۱ - ایمان کا ضیاع:
حلال کمانے اور حلال کھانے کے مختلف ذرائع چھوڑ کر جو شخص حرام کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہےوہ دراصل اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی ذات ذوالجلال پر عدم یقین و ایمان کا اظہار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پیٹ کے لیۓ جائز ذرائع رزق چھوڑ کر طمع اور لالچ کے مارے ہر موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ با الفاظ دیگر وہ اپنی قوت بازو کو اللہ تعالیٰ کے فراہمی٫ رزق کے وعدے پر ترجیح دیتا ہے۔ اس طرح ظاہری اسباب پر بھروسہ کر کے وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت سے بالواسطہ طور پر منکر ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآن میں یہ وضاحت فرما دی ہے کہ ہر ذی روح کو رزق کی فراہمی پروردگار عالم ہی کے ذمہ ہے اور جو ذات رزق کی فراہمی کو یقینی بناۓ در حقیقت وہی ذات اس لائق ہے کہ اسکی بندگی کی جاۓ۔ ارشاد ربانی ہے:
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِندَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ – 29:17 العنکبوت
ترجمہ:" تم تو پوجتے ہو اللہ کے سوا یہی بتوں کے تھان اور بناتے ہو جھوٹی باتیں ۔ بے شک جن کو پوجتے ہو اللہ کے سوا ، مالک نہیں تمہاری روزی کے سو تم ڈھونڈو اللہ کے ہاں روزی اور اسکی بندگی کرو اور اسکا حق مانو ۔ اسی کی طرف لوٹاۓ جاؤ گے۔"
جب رزق کی ذمہ داری اللہ ربّ العزت نے اٹھا لی تو پھر تم کیوں غلط ذرا ئع سے حرام حاصل کر کے اپنے لیۓ جہنم کا وسیلہ بناتے ہو؟ اللہ کو مان لینے کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے تمام معمولات اسی کے احکام کے مطابق اختیار کئےجائیں اور اللہ کی نعمتوں کا شکرانہ یہی ہے کہ تم ان نعمتوں سے اللہ ہی کی مرضی و منشا٫ کے مطابق استفادہ کرو۔ اس طرح نہ صرف تمہارے ایمان کا واضح ثبوت مہیا ہو جاۓ گا بلکہ روز قیامت جب تمہیں دوبارہ اللہ مالک کل کا ئنات کے دربار میں حاضر ہونا پڑیگا تو تمہیں اسکے حضور شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔
۲ - اللہ کے عذاب کو دعوت:
اللہ پر ایمان رکھنے والی قوم جانتی ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل در آمد کرنا ضروری ہے خواہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہوں ۔ اللہ کے احکامات کو رد کرنا نافرمانی ہے جسکے لئے مختلف سزا ِئیں ہیں ۔ مختلف شعبہ ہاۓ زندگی میں رزق کا شعبہ ایسا ہے جو ظاہراً بھی بندے کے لئے فائدہ مند ہے اور باطناً بھی۔ جبکہ عبادات کا شعبہ عموماً عام لوگوں کو دنیاوی طور پر فائدہ مند نظر نہیں آتا ۔ اسی نسبت سے ظاہری طور پر فائدہ مند نعمتوں کے معاملہ میں اللہ کے احکام کی نا فرمانی ظاہری طور پر عذاب و ذلّت کا باعث بنتی ہے۔ اور اُخروی نا کامی کا سامنا یقینی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ
كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ - 20:81 طٰہٰ
ترجمہ:"کھاؤ ستھری چیزیں جو روزی دی ہم نے تم کو اور زیادتی نہ کرو۔ پھر اترے تم پر میرا غصہّ۔ اور جس پر اترا میرا غصّہ وہ تباہ ہوا۔ "
پھر حلال کو چھوڑ کر حرام کی طرف لپکنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے سوا کیا ہے؟ آخرت کے عذاب سے قطع نظر دنیا میں دیکھ لیجئے کہ مال و دولت اور زمین و جائداد کی وجہ سے جھگڑے اور فساد اللہ کے عذاب ہی کی ایک شکل ہے۔ جیسا کہ خود قرآن میں فرما دیا
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَن يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّن فَوْقِكُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُم بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ - 6:65 الانعام
ترجمہ: " تو کہہ اُسی کو قدرت ہے کہ بھیجے تم پر عذاب اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے یا ٹہرا دے تم کو کئی فرقے اور چکھا دے تم کو آپس کی لڑائی۔ دیکھ کس طرح ہم بدل بدل کر نشانیاں لاتے ہیں سمجھنے والوں کے لئے۔"
چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ظالم اور مظلوم بھی دو گروہ ہیں ۔ ظالم گروہ نہ صرف اپنے سے کمزور لوگوں پر ظلم کے مختلف ذرائع اختیار کر کے رشوت ، چوری، فریب، ڈکیتی، سُود اور دیگر طریقوں سے حرام کماتا ہے بلکہ اس حرام کے بدلے اپنے لئے بھی مختلف عذاب کما لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرام خور لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور مصائب کا شکار نظر آتے ہیں۔ لیکن اس عذاب سے عبرت وہی حاصل کرتا ہے جو دیدہ٫ بینا رکھتا ہو۔ حرام خوری کے سبب پیدا ہونے والی زہنی پریشانی ہی اللہ کے عذاب کو سمجھنے والے شخص کے لئے کافی ہے۔ یہ زہنی پریشانی ضمیر کی ملامت سے بھی ہو سکتی ہے اور راز فاش ہو جانے کے خوف سے بھی۔ یہ مسلسل زہنی کھچاؤ بھی اللہ کے عذاب کی ایک ظاہری صورت ہی ہے۔ یہاں یہ بات زہن میں رکھنا ضروری ہے کہ بعض مصائب اور تکالیف اللہ تعالیٰ کی جانب سے نیک لوگوں کی آزمائش کی صورت ہوتی ہے۔ بہر حال حساب کے دن حرام مال کے سبب ملنے والی سزا سے اللہ تعالیٰ کی پناہ ہی طلب کرنا چاہئیے۔
۳- محنت سے فرار:
رزق حلال کے حصول کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے اور خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے تب جا کےانسان اپنی زندگی کے لئے ضروری لوازمات پورے کر پاتا ہے۔ غریب مزدور سارا دن بیلچہ چلاتا ہےتب ہی شام کو اپنے بچوں کے لئےکھانے کا سامان فراہم کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اسی طرح بڑا کارخانہ دار ہو یا زمیندار ، انہیں بھی حلال رزق کمانے کےلئے اسی قدر محنت کرنا پڑتی ہے۔ اُنکی آمدن کی شرح مزدور سے زیادہ ہونے کا سبب سرمایہ ہوتا ہے ورنہ دیکھا جاۓ تو کارخانہ دار بھی کارخانہ لگانے اور پھر اسکے لئے خام مال اور کارکن فراہم کرنے میں بہت زیادہ محنت کرتا ہے۔ مال کے لئے منڈی تلاش کر کے فروخت کرنا پھر ایک جان جوکھوں کا مرحلہ ہوتا ہے تب ہی اسے اپنے بوۓ کا پھل مل پاتا ہے۔
اسی طرح حلال کمانے والا زمیندار بھی اپنی زمین میں سرمایہ لگا کے ہل چلاتا ہے، بیج ڈالتا ہے، کھاد ڈالتا ہے اور بیماری سے بچاؤ کے لئے دوائیں چھڑکاؤ کراتا ہے۔ پھر اگر نصیب نے ساتھ دیا تو فصل بار آور ہوتی ہےجسکے کاٹنے کے لئے پھر لمبا چوڑا پروگرام ہوتا ہے۔ اسکے بعد فصل فروخت کر کے آمدن حاصل ہوتی ہے۔ اسکے برعکس حرام کمانے کے لئے زیادہ پاپڑ نہیں بیلنا پڑتے۔ اللہ تعا لیٰ نے خود معاوضہ کو محنت کے ساتھ منسلک فرما دیا ہے۔
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ - 53:39 النجم
ترجمہ:"اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جس کے لئےکوشش کی۔"
لیکن جب ایک شخص سرکاری ملازمت کرتا ہے اور پوری تنخواہ وصول کرتا ہے مگر اپنی ڈیوٹی پورے وقت کے لئے نہیں دیتا یا اپنے ذمہ لگایا جانے والا کام پوری طرح نہیں کرتا تو رفتہ رفتہ وہ محنت سے جی چرانے لگتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ جب بغیر محنت کئے پوری تنخواہ وصول ہو رہی ہے تو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی حرام خوری ہے۔ اسی سبب سے سرکاری ملکیت میں چلنے والے کارخانے اور ادارے نقصان میں جاتے ہیں۔
دیگر قسم کی حرام خوری میں سُود خور کو دیکھ لیں۔ وہ رقم لگا کر بے غم بیٹھ جاتا ہے اور اس پر سُود بطور منافع وصول کرتا رہتا ہے۔ جُوا کھیلنے والا تفریح بھی کرتا ہے اور آمدن بھی وصول کر لیتا ہے۔ چوری، ڈکیتی کرنے والا بغیر خون پسینہ بہاۓڈھیروں دولت حاصل کر لینے کے ساتھ ساتھ دوسرے شخص کا حق بھی چھین لینے کا مجرم ہے۔ دھوکہ اور فریب کرنے والا بھی معمولی عقل دوڑا کر زیادہ دولت بٹور لیتا ہے۔ ملاوٹ کرنے والا تاجر کم لاگت سے زیادہ آمدن کمانے کے چکر میں حرام کھاتا ہے۔ غلط مسائل بیان کر کے مال بنانے والا مولوی بھی دولت کمانے کے لئے آسان گر سمجھ کر ہی ایسا دھندہ اختیار کرتا ہے۔ حکمران کا اپنے اختیارات کو نا جائز طور پر استعمال کرنا بھی مال کے حصول کے لئے آسان راستے کا انتخاب ہے۔ علیٰ ھٰذا لقیاس نا جائز طور پر مال کمانا اور کھانا دولت کے پجاریوں کا دوسرا رُوپ ہے جو محنت سے جی چرانے کے سبب دولت تک پہنچنے کا آسان راستہ تلاش کرتے ہوۓاس دلدل میں آ پھنستے ہیں۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ چنانچہ سوسائٹی میں جب کوئی شخص غلط ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے دیکھتے ہی دیکھتے امرا٫ کی صف میں شامل ہو جاتا ہے تو باقی کو بھی اس طریقہ٫ کار کے اختیار کرنے کی طرف رغبت ہوتی ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی ایک کاروبار میں زیادہ منافع دیکھ کر شہر میں اسی کاروبار کے کرنے والوں کی بہتات ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہ بھیڑ چال پورے معاشرے کو کاہل بنانے کے درپے ہے۔ ہر شخص راتوں رات لکھ پتی اور کروڑوں پتی ہو جانے کا خواہشمند ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسکے لئےصحیح اور معاشرے کے لئےقابل قبول ذرائع اختیار کرنے کی بجاۓ چور دروازوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ جب معاشرے کے اندر ایسے چور دروازے ذرا سے کھٹکے سے بھی کھلتے جائیں تو محنت کے سوتے خود بخود خشک ہونے لگتے ہیں ۔ ہمیں جان لینا چاہئیےکہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے اور اسکی حیثیت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں۔ جو اچانک بنتا ہے لیکن فوراً ہی ٹوٹ بھی جاتا ہے۔
۴- کرپشن میں اضافہ:
محنت سے جی چرانے کا لازمی نتیجہ کرپشن میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔ زندگی کے لئے درکار لوازمات تو بہر حال پورا کرنے پڑتے ہیں جو کہ بغیر سرمایہ ممکن نہیں۔ ایسے میں سرمایہ کے حصول کے لئےحرام کا راستہ باقی رہ جاتا ہے۔ جتنا حرام کے راستے کو زیادہ استعمال کیا جاۓ گا اتنا ہی معاشرے کے اندر کرپشن میں اضافہ ہو گا۔ اس صورت حال کا نقشہ قرآن کریم نے کچھ یوں کھینچا ہے۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ - 30:41 الروم
ترجمہ:"کھل پڑی ہے خرابی خشکی میں اور دریا میں لوگوں کی ہاتھ کی کمائی سے۔ چکھایا چاہے انکو کچھ مزہ انکے کام کا کہ شاید یہ پھر آویں۔"
اسکا مطلب واضح ہے کہ معاشرے کے اندر تمام خرابیاں لوگوں کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں ۔ اگر وہ لالچ نہ کریں ،دوسروں کے مال پر نظریں نہ لگائیں اور محنت سے جی نہ چرائیں تو کرپشن کی صورت میں لوٹ کھسوٹ میں اضافہ نہ ہو۔ رشوت کی شرح میں اضافہ نہ ہو، جوا٫ اور سود خوری کی بیماریاں ختم ہو جا ئیں ، چوری اور ڈکیتی کے واقعات نا پید ہو جائیں ، کمزوروں پر ظلم اور زیادتی کر کے مال ہڑپ کرنے جیسی قباحتیں نہ رہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اسلئےکہ انسان دولت کی طمع میں اندھا ہو چکا ہےاور حلال و حرام کے درمیان تمیز نہیں کر پاتا۔ اللہ کے پیارے رسول جناب محمد الرسول اللہﷺ کا فرمان ہے۔
عن ابی ھریرۃ ؓ عن النبیﷺ قال یاتی علی ا لناس زمان لاّ یبالی المر٫ ما اخذ منہ امن ا لحلال ام من ا لحرام ۔
صحیح البخاری (کتاب ا لبیوع)
ترجمہ:" ابی ھریرہؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ لوگوں پر ایسا زمانہ آئیگا جب آدمی اس بات کی پرواہ نہیں کریگا کہ مال حلال یا حرام کس ذریعہ سے حاصل کیا ہے۔"
چنانچہ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اکثر لوگ صرف دولت کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں اور حلال و حرام کے درمیان فرق رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جس سے معاشرے کی اخلاقی حالت ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
۵- فضول خرچی:
جب بغیر محنت کئے وافر مال ملنے لگے تو اس مال کی قدر بھی نہیں رہتی۔ وہ مال بغیر سمجھے بوجھے ہر طرح خرچ کیا جانے لگتا ہے۔ اس پر یہ محاورہ بالکل صادق آتا ہے " مال مفت دل بے رحم"۔ غلط ذرائع سے حاصل کیا گیا مال غلط کاموں ہی پر خرچ ہوتا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ ملاوٹ، سمگلنگ ، اور دوسرے ذرا ئع سے مال بنانے والے تاجر شراب، جوا٫ اور رنڈی بازی کے رسیا ہوتے ہیں ۔ رشوت خور سرکاری ملازمین کا بھی یہی حال ہے۔ کمیشن کھانے اور اپنا ووٹ بیچنے والے سیاستدانوں کا بھی یہی شغل ہے۔ معاشرہ کے کسی بھی طبقہ کو لیجئے اس میں سے جو افراد حرام آمدن سے پرہیز نہیں کرتے ان میں ایسی قباحتیں پا ئی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے حرام خوروں میں سے بہت ہی درویش منش اور خدا خوف شخص کو لیں تو وہ اگرچہ ناؤ نوش سے پرہیز کرتا ہو لیکن لمبے چوڑے بنگلے کوٹھیاں ، قیمتی فرنیچر اور سامان آرائش وہ بھی نہیں چھوڑتا۔ ہر سال نئے ماڈل کی گاڑیاں بدلنا اور گھر کے پردے اور فرنیچر وغیرہ بدلنا انکا عام مشغلہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگ دولت کو خرچ کرنے کے لئےبہانے تلاش کرتے ہیں ۔ چنانچہ کتےّ، طوطے اور گھوڑے پر بھی اندھا دھند دولت لٹانے میں دریغ نہیں کرتے۔ انکے لئےخاص طور پر مکان تیار کر کے انکی خدمت کیلئے نوکر رکھنا پھر انکی خوراک پر دولت بہانا انکا معمولی کھیل ہوتا ہے۔
اسی طرح آئے دن مختلف تقریبات منعقد کر کے دولت کی نمائش کرنا انہیں سکون مہیا کرتا ہے۔ شادی بیاہ، برتھ ڈے، ویڈنگ ڈے، شبقدر میں آتشبازی، بسنت اور نہ جانے کون کونسے تہوار منانے کے بہانے دولت کا ضیاع کیا جاتا ہے۔پھر ہر تقریب بذات خود فضول خرچی کی اعلیٰ مثال ہوتی ہے۔ شادی بیاہ میں بے شمار رسومات جن میں مہندی، تیل، دودھ پلائی، منہ دکھائی اور لمبے چوڑے جہیز اور بَری سب ہی دولت کی نمائش کا ذریعہ ہیں۔ برتھ ڈے پر اپنا محاسبہ کرنے اور آئندہ کیلئے نیا عہد کرنے کی بجائے خوشی منانا اور لمبے چوڑے کیک کے علاوہ دیگر اٹھکیلیاں کرنا سراسر نادانی ہے۔ حالانکہ یہ انسان کی زندگی سے ایک سال کم ہو جانے کا اعلان ہوتا ہے۔ سنجیدہ اور حقیقت پسند شخص کو اسکے صحیح استعمال نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرنا چاہئے۔ آتشبازی اور وہ بھی شب قدر جیسی مبارک رات میں بڑی ہی بد نصیبی کی بات ہے۔ اسلام خوشی کے اس طرح اظہار کو پسند نہیں کرتا بلکہ ایک خاص ضابطہ٫ اخلاق مہیا کرتا ہے۔ جس میں اللہ کی یاد کے ساتھ ساتھ محروم و پست انسانوں کو اپنے ساتھ خوشی میں شریک کر کے انکی اہمیت کا احساس اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج ایسا تہوار دولت کو آگ میں جھونک کر منایا جاتا ہے۔ اس سے ہر سال کئی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں اور مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ جو مال بارود پھونکنے میں ضائع کر دیا جاتا ہے اسکا حساب الگ ہے۔ اسی طرح بسنت جیسے ہندوانہ تہوار پر سالانہ کروڑوں روپے ضائع کر دئے جاتے ہیں۔ یہ رقم کسی بھی نیک مقصد میں لگا کر قوم و ملک کے ساتھ ساتھ بہتوں کا بھلا کیا جا سکتا ہے۔ اس میں بھی ہر سال خاصہ جانی نقصان ہوتا ہے۔ (کچھ سالوں سے پنجاب حکومت نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن اب بھی ڈور سے گلا کٹنے کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اس کا تدارک کرنے کے لئے مؤثر قانون سازی اور عملدرآمد کی ضرورت ہے)۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں حق دار کو حق دینے کی تاکید کی ہے وہاں فضول خرچی سے اجتناب کا بھی حکم دیا ہے۔ یہاں تک کہ فضول خرچ شخص کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے۔
وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا - إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا – 17:26-27 بنی اسرائیل
ترجمہ:"اور دے ناطے والے کو اسکا حق اور محتاج کو اور مسافر کو اور مت اُڑا بکھیر کر۔ بے شک اُ ڑانے والے ہیں بھائی شیطانوں کے۔ اور شیطان اپنے رب کا نا شکر ہے۔"
مقصد یہ ہے کہ خرچ کرنے کی جگہ ضرور خرچ کرو لیکن فضولیات میں خرچ کرنا شیطانی عمل ہے اور اللہ کی نا شکری ہے۔ اللہ کا شکر گزار بندہ وہی ہے جو اللہ کے دئے ہوئےحق حلال کے مال کو اللہ ہی کی مرضی کے مطابق خرچ کرے ۔لیکن حرام مال کی دیگر برائیوں میں سے ایک برائی یہ بھی ہے کہ یہ ہمیشہ غلط راستے ہی میں خرچ ہوتا ہے۔ جب اس حرام مال کے غلط انفاق کی مثال معاشرے کے صاحب حیثیت افراد قائم کرتے ہیں تو پھر حلال مال کمانے والے غریب لوگ بھی اس راستے پر چلنے کی خواہش کرتے ہیں۔ اُنکی محدود آمدن اس عیاشی کی متحمل نہیں ہو سکتی لہٰذا ان میں سے کمزور ارادے کے افراد بھی غلط اکتساب مال کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ اسطرح برائی کا دائرہ وسیع ہونے لگتا ہے۔
TO BE CONTINUED........
Comments