![](https://static.wixstatic.com/media/a4fde3_3cef81deb2c04d02b0a349116b31cff9~mv2_d_6477_8382_s_4_2.jpg/v1/fill/w_980,h_1268,al_c,q_85,usm_0.66_1.00_0.01,enc_avif,quality_auto/a4fde3_3cef81deb2c04d02b0a349116b31cff9~mv2_d_6477_8382_s_4_2.jpg)
رزق حلال اور آج کا معاشرہ
موضوع پر آنے سے قبل ایک اہم بات تمہیداً سمجھ لینا ضروری ہے کہ اسلام ایک عملی دین ہے ۔ اسکی تعلیمات تب ہی فا ئدہ مند ثابت ہوتی ہیں جب انہیں عملی زندگی میں اپنا لیا جاۓ۔ یہی وجہ ہے کہ نزول قرآن تدریجاً تھوڑا تھوڑا حسب ضرورت ہوتا رہا تا کہ اس وقت کے مخاطب انسان نہ صرف ان احکامات کو اچھی طرح سمجھ لیں بلکہ ان پر فرداً فرداً کما حقہٗ عمل بھی کریں۔ یہاں انسان کی فطرت کے اس پہلو کو مدّ نظر رکھا گیا ہے کہ وہ یکبارگی اپنی طرز زندگی اور معمولات کو تبدیل کرنے سے قاصر ہے۔ بہر حال یہاں ہمیں اس بات کا جا ئزہ لینا ہے کہ آج ہمارے معاشرہ کے اندر رزق حلال کا عملی زندگی میں کیا مقام ہے؟
اس مقصد کے لئے ہم معاشرہ کے مختلف طبقات کا فرداًفرداً تفصیلی ذکر کریں گے تا کہ آج کے معاشرہ میں مسلمانوں کا رزق حلال کے ساتھ حقیقی رویّہ منظر عام پہ آ سکے۔ دراصل یہ بیماری کا تشخیصی مرحلہ ہے جسکی صحت بیماری کے خاتمہ کے لئےعلاج تجویز کرنے کی غرض سے از حد ضروری ہے۔
خوش بختی یہ ہے کہ آج کے مسلمان معاشرہ میں حرمت ذات یا حرام فی نفسہٖ سے پرہیز کیا جاتا ہے ، الاّ قلیلاً؛ وہ بھی شراب اور دوسری منشیات کی شکل میں ہے۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ حرمت معنوی کو معاشرے کا تقریباً ہر طبقہ فراموش کر بیٹھا ہے۔ اسکے نتیجہ میں کوئی شخص بھی معنوی حرام خوری سے بچے ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ در اصل اسی معنوی حرام خوری نے معاشرے کی اخلاقی حالت کو تباہی کے کنارے پہنچا رکھا ہے۔ یہ حالت اس قدر دگرگوں ہے کہ معاشرے کے حسّاس اور صاحب دل افراد اس کے سدھرنے سے مایوس دکھائی دینے لگے ہیں۔ آ ئیےمعاشرے کے اہم طبقات کا رزق حلال کے حوالہ سے جا ئزہ لیتے ہیں۔
۱-حکومت:
حکومت در اصل معاشرہ کے با اختیار افراد کا اجتماعی حیثیت میں ایک ادارہ ہے جو معاشرہ کو قیادت فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ہم حکومت کی بات کریں گے تو اس سے مراد حکومتی ادارے میں قیادت فراہم کرنے والے افراد ہونگے۔ ظاہر ہے بحیثیت فرد انکے بھی کچھ فرائض اور کچھ حقوق ہیں۔ حقوق سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہو جانا اعلیٰ ظرفی اور معاشرہ پر احسان ہے جبکہ فرا ئض سے چشم پوشی معاشرہ پر ظلم اور اپنے حق میں حرام خوری ہے۔ اس پر مستزاد اپنے اختیارات کا نا جا ئز استعمال اور اپنے عہدے کے حوالہ سے نا جائز مراعات کا حصول ہے۔بد قسمتی سے مسلمان معاشرہ کی قیادت ان تمام قسم کی برا ئیوں میں ملوّث ہو چکی ہے۔ اپنے حقوق سے کوئی دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ عوام کی خدمت کے دعوے کرنے والے قومی خزانے سے لمبے چوڑے مشاہرے وصول کرتے ہیں ۔ رہائشگاہوں کے شاہانہ کراۓ، عالیشان گاڑیاں ، سفری اور اقامتی الاؤنس، میڈیکل سہولیات اور دیگر تمام قسم کی سہولیات جو حکومتی قانون کے تحت انہیں میّسر ہیں ،حاصل کی جاتی ہیں۔ لیکن اسکے باوجود اپنے فرا ئض کی ادا ئیگی کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کی مقدار سے زیادہ نہیں۔
دین اسلام کی سر بلندی کے لئے جدوجہد، عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئےعملی اقدامات اور رعایا کو مفت اور فوری انصاف کی فراہمی حکومت کے چند بڑے فرا ئض ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کی حالت اس بات پر گواہ ہے کہ یہ فرا ئض پورے نہیں کئے گئے۔ اسکی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن ہمیں آم کھانے سے غرض ہے ، نہ کہ پیڑ گننے سے۔ جب یہ فرا ئض پورے نہیں ہوں گے تو لازمی طور پر عوام کے دل حکومت کی سست روی اور اپنے فرا ئض میں عدم دلچسپی پر غمگین ہونگے۔ یہ احساس عوام کی مظلومیت پر دلالت کرتا ہے۔ کسی ایک حکومت کی موجودگی میں عوام پر ظلم اس بات کا غماّز ہے کہ حکومت اپنے فرا ئض میں غفلت کی مرتکب ہے۔ پس فرا ئض میں غفلت حرام خوری ہی کی ایک قسم ہے۔
اسی طرح اپنے عہدے سے ناجا ئزمراعات اور تحفے تحا ئف وصول کرنا، دھونس دھاندلی سے اپنا کام نکلوانا اور پلاٹ پرمٹ کی سیاست کرنا بھی ظلم کے زمرہ میں آتا ہے اور حرام خوری ہی کی قسم ہے۔ سیاسی رشوت گری نے جہاں ملکی استحکام کو داؤ پر لگا رکھا ہے وہاں عوام الناس کی ذہنیت کو لالچ اور مادہ پرستی کی طرف راغب کر دیا ہے۔ حلال و حرام کی تمیز کرنا بے وقوفی سمجھا جانے لگا ہے۔ دور اندیشی کو قدامت پسندی سے تعبیر کیا جانے لگا ہے۔ برسر اقتدار اور صاحب اختیار طبقات کے اس رجحان نے مجموعی طور پر سارے معاشرہ کو متأثر کیا ہے جسکی وجہ سے پورا معاشرہ بحیثیت ایک قوم کے تباہی کے کنارے پہنچ چکا ہے۔
۲ - رعیّت:
عام محاورہ ہے کہ "الناس علیٰ دین ملوکھم": لوگوں کے طور اطوار بادشاہوں اور سرکردہ لوگوں کے طور اطوار پر ہوتے ہیں۔ بادشاہ کا مزاج لوگوں کے مزاج پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنے ارد گرد نظر دوڑا کے دیکھ لیجئے۔ آج کا معاشرہ جمہوریت کا دعویدار ہونے کے با وجود برسر اقتدار شخص یا گروہ کے مزاج اور طرز زندگی کی نقل کرتا نظر آتا ہے۔
سرکردہ افراد کے شاہانہ طریقے غربت میں پسے ہوۓ عوام تک اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشی اعتبار سے اوپر سے لیکر نیچے تک درجہ بدرجہ حکمرانوں کی نقّالی کرنا فیشن بن چکا ہے۔ کوٹھی، بنگلے، پلاٹ، قیمتی کاریں، زرق برق لباس، شادی بیاہ میں بے سروپا مہنگی رسومات، لمبے چوڑے مینو پر مشتمل قیمتی کھانے، ماتم پر سوئم ، چہلم جیسی رسومات اور دکھاوے کی بڑی بڑی خیراتیں معاشرے کے تمام طبقات میں پھیل چکی ہیں۔ کوئی تویہ نقّالی امرا٫ کے ساتھ مسابقت کےلئے کرتا ہے اور کوئی سوسائٹی میں اپنی ناک کٹ جانے کے خوف سے کرتا ہے۔
اسی طرح تعلیم بھی معاشرتی حیثیت جانچنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔عام سرکاری سکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ پرائیویٹ اور اونچے درجے کے سرکاری انگلش میڈیم سکولوں سے فارغ ا لتحصیل طلبہ ہی اعلیٰ تعلیم کے لئے دستیاب اداروں میں داخلہ کا اہل قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح ملازمتوں میں بھی انگریزی سکولوں کے پڑھے ہوۓ بچوں ہی کو فوقیت دی جاتی ہے۔چنانچہ عوام کے اندر انگریزی سکولوں میں بچے داخل کرانے کا رجحان شدّت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
اسے بدقسمتی کہئے یا خوش قسمتی کہ سب ہی لوگ فضول رسومات و تقریبات اور انگریزی سکولوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہیں سے کرپشن اور حرام خوری کی ابتدا٫ ہوتی ہے۔ جائز وناجائز اور حلال وحرام کے درمیان فرق یہاں آکر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں پہنچ کر صرف ایک ہی خواہش باقی رہ جاتی ہےاور انسان مشنری جذبہ کے ساتھ اسکے حصول کے لئے مصروف عمل ہو جاتا ہے۔ یہ خواہش مال و دولت کا حصول ہے۔ خواہ وہ غلط کاروباری ہتھ کنڈوں سے ہو یا ٹیکس چوری کر کے ہو۔ رشوت وصول کرنے سے ہو یا لوگوں پر ناجائز دباؤ ڈالنے سے ہو۔ لوگوں کی عزت و آبرو خاک میں ملانے سے ہو یا قوم کے مستقبل بچوں کی زندگی تباہ کرنے سے ہو۔ غرضیکہ سوشل سٹیٹس کے حصول میں پاگل ہو جانے والے افراد اپنی اس ذہنی بیماری کو پورے معاشرہ کی تباہی میں بدل دیتے ہیں۔ کیونکہ انکی تمام تر توانا ئیاں دولت کے سمیٹنے میں صرف ہو جاتی ہیں اور وہ اس سلسلے میں کبھی بھی حلال و حرام کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے ۔ انکا مقصد معاشرے میں امرا٫ کے معیار زندگی کا حصول بن جاتا ہے۔
۳ - ملازمت:
مختلف سرکاری محکمے کاروبار حکومت چلانے کے لئے حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا کام دیتے ہیں۔ انکی غرض و غایت متعلقہ شعبہ میں سہولت فراہم کرنا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عدلیہ کا کام عوام کو انصاف فراہم کرنا اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ اسی طرح پولیس کا کام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اور معاشرہ میں امن و امان برقرار رکھنا ہے۔ پھر ان محکموں کا نظام سرکاری ملازمین کی حیثیت سے افراد چلاتے ہیں جنہیں سرکاری ملازم کہا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرہ کے اندر سب سے زیادہ اور عام حرام خوری سرکاری ملازمین میں پا ئی جاتی ہے۔ سرکاری ملازمت میں رزق حلال کا تصوّر ہی ختم ہو کے رہ گیا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ لوگ سرکاری ملازمت کے لئے دوڑ دھوپ ، سفارش اور رشوت ہی اس لئے دیتے ہیں کہ بعد میں وہ رشوت اور کمیشن کے نام پر کئی گنا رقم سالانہ کماتے ہیں۔ جبکہ ان کی اصل تنخواہ انکے لئے محض بونس یا تفریحی الاؤنس کا درجہ رکھتی ہے۔
ملازمین کی حرام خوری کئی قسم کی ہے۔ مثال کے طور پر "رشوت" جو کہ ہر جا ئز و نا جائز، چھوٹے بڑے کام کے لئے عوام سے وصول کی جاتی ہے۔ جتنا اہم کام ہو گا اتنی ہی زیادہ رشوت لی جاۓ گی۔ پھانسی کی سزا معاف کرانے سے لیکر ڈاکخانے میں کسی معمولی لا ئسنس کی تجدید کرانے تک ہر کام کے لئے رشوت وصول کرنا اکثرسرکاری ملازمین اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔ گویا کہ
؎ عادت سی ہو گئی ہے تیرے انتظار کی۔
اس رشوت سے معاشرے کے اندر جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے وہ ایک الگ موضوع ہے۔ یہاں یہ بتانا مقصود ہےکہ رشوت کو بالکل حلال سمجھ لیا گیا ہےحالانکہ عوام کے کسی بھی کام کرنے کے لئے ہی انہیں متعلقہ محکمہ میں ملازمت دی جاتی ہے۔ اس کام کے عوض قومی خزانہ سے انہیں باقاعدہ تنخواہ دی جاتی ہے۔
دوسری قسم "کام چوری" ہے۔ وقت بے وقت چھٹیاں کرنا اور اپنے فرائض منصبی کما حقہٗ ادا نہ کرنا بھی حرام خوری ہے۔ ایسے شخص کی وصول کردہ تنخواہ حلال تب ہو گی جب وہ اپنے ذمہ فرائٔض کو خوش اسلوبی سے ادا کرےگا۔
تیسری قسم سرکاری مال کے اندر " خورد برد" کرنا ہے۔ اس مد میں پھر کئی اقسام ہیں۔ ان میں جعلی بل بنا کر رقم نکلوانا، سرکاری مال یا جائداد کو اونے پونے فروخت کر کے کمیشن وصول کرنا، چند سو روپے کی چیز ہزاروں میں خرید کر زائد رقم ہڑپ کرنا اور دیگر بےشمار قسم کے خورد برد ہیں۔
چوتھی قسم "کمیشن" کی وصولی ہے۔ تمام سرکاری محکموں میں کام کرنے والےٹھیکیداروں کو ٹھیکہ لینے پر کل مالیت پر خاص شرح سے محکمہ کے ملازمین کو کمیشن دینا پڑتا ہے۔ بعض اوقات اس کمیشن کی شرح ستّر فیصد تک جا پہنچتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح قومی خزانے کو باپ کی جاگیر سمجھ کر دیدہ دلیری سے لوٹا جاتا ہے۔
پانچویں قسم اپنے منصب اور "عہدہ کا نا جائز " استعمال ہے۔ اکثر ملازمین اپنے اختیارات کا اظہار کرنے کے لئے سادہ لوح عوام کے جائز کاموں میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہ اپنے منصب کے ساتھ بدترین بددیانتی ہے۔ انہیں اس منصب پر لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے فائزکیا گیا ہے، نہ کہ مسائل پیدا کرنے کے لئے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو یہ بھی حرام خوری کے زمرے میں آتا ہے۔
چھٹی قسم سرکاری "سہولیات کا نا جائز استعمال" ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری ٹیلیفون کو اپنے ذاتی اور نجی کاموں کے لئے استعمال کرنا، سرکاری گاڑی کو اپنے گھریلو کاموں کے لئے استعمال کرنا، سرکاری ملازموں کو اپنے ذاتی اور گھریلو کاموں میں الجھا ۓ رکھنا، طبی سہولت کی مد میں ملنے والی دوائیں بازار میں فروخت کر کے رقم وصول کرنا وغیرہ۔ علیٰ ھٰذا لقیاس سرکاری ملازمین کی بد دیانتی اور حرام خوری کی فہرست بہت ہی طویل ہے جسے یہاں بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ چند مثالیں پیش کرنے سے بھی قارئین اس برائی سے آگاہ ہو چکے ہونگے۔ پس جان لینا چاہئیے کہ درج بالا اقسام اور انہی جیسی دیگر غلط حرکتیں ملازمین پر رزق حلال کا دروازہ بند کر سکتی ہیں۔ اس لئے انہیں اس سے پرہیز کرنا چاہئیے۔
واقعتاً حرام سے بچنے والے ملازمین بھی ایک معقول تعداد میں ہر محکمہ میں موجود ہیں جسکے طفیل کاروبار حکومت چل رہا ہے۔ البتہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو اطمینان سے اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرنےدۓ جاتے اور انہیں کباب میں ہڈی تصور کرتے ہوۓ تبادلوں کے چکر میں مصروف رکھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ ہی قلبی اطمینان پاتے ہیں۔
۴ - تجارت:
تجارت ایک ایسا مقدس پیشہ ہے جو مختلف انبیا٫ علیہم ا لسلام کی سنّت بھی رہا ہے۔ جناب نبی آخرالزمان محمد مصطفےٰ ﷺ بھی تجارت کر چکے ہیں لیکن آج تجارت میں بھی ایسے ہتھکنڈے آزماۓ جاتے ہیں کہ اچھی بھلی حلال روزی کو حرام کر دینے کا باعث بن جاتے ہیں۔ ان میں سر فہرست "جھوٹی قسمیں" کھا کر مال فروخت کرنے کی کوشش کرنا ہے حالانکہ اس بات سے جناب رسول ا للہﷺ نے بارہا منع فرمایا ہے۔ اس طرح مال تو بک جاتا ہے لیکن دھوکے کے زمرے میں آنے کے باعث حرام ہو جاتا ہے۔
دوسری چیز "ملاوٹ" ہے۔ آجکل مفاد پرست اور کوتاہ اندیش تاجر ہر چیز میں ملاوٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ سے اصل نقل کی پہچان ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ زیادہ قابل مذّمت بات یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا٫ میں ملاوٹ کی جائے کیونکہ اسطرح اس شخص کے دو جرم ہو جاتے ہیں ۔ ایک تو خود ملاوٹ اور دوسرے اسے خرید کے کھانے والے کی صحت کو نقصان پہنچانا بلکہ اس کی جان سے کھیلنا۔ عام مشاہدہ ہے کہ دودھ ، شہد، چاۓ کی پتی اور مصالحہ جات میں مضر صحت اشیا٫ کی ملاوٹ کر کے نا جائزمنافع کمایا جاتا ہے۔
تیسری چیز "ذخیرہ اندوزی" ہے۔ مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرنے کے لئے ذخیرہ اندوز تاجر با قاعدہ منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں ۔ حالانکہ اسکے نتیجہ میں کمایا جانے والا مال حرام خوری ہی کی ایک قسم ہے۔
چوتھی چیز "گرانفروشی" ہے۔ یہ دراصل ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اسکے ذریعہ مجبور و بے کس لوگوں کو لوٹنا بھی حرام خوری ہے۔
پانچویں چیز "کمیشن" ہے جو کہ تاجر اپنا مال فروخت کرنے کے لئےسرکاری ملازمین کو ادا کرتا ہے۔ اسطرح وہ اپنی تجارت میں حرام کی آمیزش کر لیتا ہے۔ حیرت ہے کہ اس سلسلے میں وہ اپنا سرمایہ لگاتا ہے، محنت بھی خود کرتا ہے لیکن رشوت یا کمیشن دے کر حرام خوری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
چھٹی چیز "ٹیکس چوری" ہے۔ یہ عمل دراصل حکومت کے قانون کو پامال کرنے اور ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے اور حرام خوری کی ایک جدید قسم ہے۔
ساتویں چیز "غیر شرعی یا غیرقانونی" کاروبار ہے۔ غیر شرعی میں تو شراب اور دیگر منشیات اور ممنوعہ اشیا٫ کی تجارت شامل ہے۔ جنکا تمام تر لین دین ناجائزہے۔ لہٰذا اسکے ذریعہ کمائی جانے والی آمدن بھی حرام ہو جاتی ہے۔ اسی طرح فحش ویڈیو فلمیں اور سینما کی تجارت ،جو کہ معاشرہ کے اندر فحاشی اور بے حیائی پھیلانے اور قوم کو بے راہ کرنے کا باعث بنتی ہے بھی حرام ہے۔ غیر قانونی کے ضمن میں ہر وہ تجارت شامل ہے جو ملکی قانون توڑ کر کی جاۓ۔ اس میں سمگلنگ اور ممنوعہ اشیا٫ کی تجارت شامل ہے۔ ایسی تجارت جو قانونی تقاضے پورے کئے بغیر کی جاۓ بھی اس میں شامل ہے کیونکہ اسطرح ملک میں لا قانونیت پیدا کرکے عدم استحکام کی صورت حال پیدا کی جاتی ہے۔ بعض صورتوں میں قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچتا ہے خصوصاً جب ٹیکس ادا نہ کیا جاۓ۔
آٹھویں چیز تجارت کے اندر "سودی لین دین" کرنا ہے۔ جائز اور حلال تجارت کے اندر سود کی آمیزش پورے کاروبار اور اسکی آمدن کو حرام میں تبدیل کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔
نویں چیز "زکوٰۃ کی عدم ادائیگی " ہے۔ زکوٰۃ مال کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ نصاب کو پہنچے ہوۓ مال سے مقررہ شرح سے زکوٰۃ نہ نکالنا ، جبکہ دیگر شرائط بھی پوری ہوں ، مال تجارت میں بے برکتی پیدا کرتا ہے اور ایسی آمدن حرام ہو جاتی ہے۔ اسی طرح دیگر کئی قسم کی وجوہات ہیں جو سرمایہ لگانے اور محنت کرنے کے باوجود ملنے والے مال کو حرام کر دیتی ہیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ تاجر اپنی تجارت کو اسلامی قوانین کے مطابق ڈھالے تاکہ حرام خوری سے بچ کر رزق حلال سے مستفید ہو سکے۔
۵ - امامت:
شروع اسلام میں منصب امامت قوم کی قیادت کلّی کا اختیار رکھتا تھا۔ جناب پیغمبر اسلام ﷺ سے لیکر خلفاۓ راشدین تک تو دینی ودنیاوی دونوں قسم کی قیادت مکمل طور پر منصب امامت ہی میں پیوست رہی لیکن بعد میں رفتہ رفتہ الگ ہونے کا عمل شروع ہو گیا۔ حتٰی کہ اسلام مخالف قوتوں کی سازشوں سے منصب خلافت کا خاتمہ ہو گیا اور ہر دو قسم کی قیادت کو ہمیشہ کے لئے الگ کر دیا گیا۔ یہ امتّ مسلمہ کیلئے بہت بڑا دھچکا تھا کیونکہ اسکے بعد دینی قیادت کو وہ قوّت میسر نہ رہی جو اشاعت اسلام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے لئے ضروری تھی۔ چنانچہ عامۃالمسلمین اور اسلامی تعلیمات کے درمیان بُعد پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ اسکے نتیجہ میں منصب امامت کو ہیچ خیال کیا جانے لگا۔ معاشرے کے صاحب حیثیت لوگ شاہی دربار کے گرداگرد گھومنے لگےاور مدرسہ وخانقاہ کے ساتھ ساتھ مساجد کی کنجیاں معاشرے کے پسے ہوۓ افراد کے ہاتھ میں آ گئیں ۔ گو کہ اس تسلسل نے تعلیمات اسلام کی اشاعت میں کوئی گرانقدر اضافہ نہ کیا لیکن اسے برقرار رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ البتہ منصب امامت کا وقار بری طرح مجروح ہوا کیونکہ اب اس طبقہ کا گزارہ صدقات و خیرات اور شیرینیوں پر ہونے لگا۔ مال ودولت سے محرومی کے ساتھ اگر ایمان بھی کمزور ہو اور ایسے میں دنیاوی آسائشوں کی جھلک نظر آ جاۓ تو ارادے متزلزل ہونے لگتے ہیں۔ چنانچہ خام ایمان افراد نے مناصب امامت پر فائز ہو کر اسی منصب کو رسوا کرنا شروع کر دیا۔ قُرب شاہی کے لئے نا جائزکو جائزکے فتوے دینے، حصول زر کے لئے غلط مسائل تراشنے اور ذاتی شہرت کے لئےمتنازعہ اُ مور کو اچھالنے لگے۔ یہ اُ مور یقیناً انکی حلت رزق پر اثر انداز ہوۓ۔
کچھ لوگوں نے اسے نا کافی جان کر سادہ لوح مسلمانوں کی اسلام سے محبت کا فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ پیری کے بھیس میں لوگوں کو چرس، بھنگ اور دیگر منشیات کا عادی بنا کر لوٹنا شروع کر دیا۔ کالے بکروں، سفید کپڑے کے تھانوں، تین مرغوں اور دو درجن انڈوں جیسی فرمائشوں نے پیروں کے وارے نیارے کر دۓ۔ یہ پیر اشاعت اسلام کی بجاۓ بنگلوں، کاروں اور دیگر آسائشوں میں دلچسپی رکھنے لگے۔ ان پیروں کے آستانوں میں دولت کی چہل پہل نے بے شمار مادہ پرستوں کو متوجہ کر لیا۔ آج ہر بڑے دیہات و شہر میں پیروں کے اڈّے قائم ہیں۔ کیا یہ ذریعہ آمدن جائزہے؟ یقیناً نہیں۔
البتہ ایک بات خاصی حوصلہ افزا ہے کہ ہر دور میں ایک گروہ علما٫ کرام اور مشائخ عظّام کا ایسا رہا ہے جو حق کا پرچم بلند کئےرہے۔ بالکل عین اس ارشاد ربّانی کے مطابق:
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - 3:104 اٰل عمران
ترجمہ: "اور چاہیٔے کہ رہے تم میں ایک جماعت جو بلاۓ نیک کام پر اور حکم کرے اچھے کام کا اور منع کرے بری بات سے۔ یہی پہنچے مراد کو۔"
اس گروہ نے ہر دور میں نہ صرف عامۃالمسلمین کو صحیح تعلیمات اسلام سے رُوشناس کرانے کا فرض ادا کیا بلکہ علما٫ سو٫ اور مادہ پرست پیروں کے خلاف جہاد بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج چودہ سو سال گزرنے کے باوجود تعلیمات اسلام بالکل اصلی حالت میں ہمارے پاس موجود ہیں اور فرزندان توحید ان سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔
TO BE CONTINUED........ Click here to VIEW this book. Click here to DOWNLOAD this book.
Commentaires