رزق حلال |Rizq e Halal series (Part-3)
- Anayat Bukhari
- May 29, 2018
- 6 min read

Read to ensure that you are consuming Halal
رزق حلال کی اہمیت
دین اسلام فطرت کے اصولوں کے عین مطابق اپنے بنیادی قوانین پیش کرتا ہے۔ اسکا ثبوت انسانی زندگی کے معاشی پہلو پر موجود مختلف ہدایات سے ملتا ہے۔ اسلامی قوانین کا یہ باب اپنے اندر تمام تر باریکیاں سمیٹے ہوۓ ہے جس سے عملی طور پر معاشی مسا ئل کے حل کے لئے پیش بندی کی جا سکتی ہے۔دین اسلام نے انسانی زندگی کے معاشی پہلو کو جس قدر اہمیت دی ہے اسکا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے رزق حلال کے لئے اکثر جگہ فضل کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اسکا مطلب عمومی "اللہ کی رحمت" ہے۔ مثال کے لئے ملاحظہ ہو.
رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا - 17:66 بنی اسرائیل
ترجمہ: "تمہارا رب وہ ہے جو ہانکتا ہے تمہارے لئے کشتی دریا میں کہ تلاش کرو اسکا فضل۔بے شک وہ ہمیشہ تم پر مہربان ہے۔"
یہ آیت نہ صرف رزق کو فضل کے لفظ سے یاد کرتی ہے جس میں کہ دریا سے نکلنے والی مچھلی، موتی اور مونگے وغیرہ شامل ہیں بلکہ ساتھ یہ بھی جتاتی ہے کہ تمہاری اس ضرورت کا خیال رکھتے ہوۓ اللہ ربّ العزت اس کشتی کو دریا کی طوفانی لہروں سے محفوظ رکھتے ہوۓ تیرنے میں مدد دیتے ہیں۔ پھر ایک اور آیت میں رزق حلال کو نہ صرف فضل کہا بلکہ رزق حلال کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے۔
فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - 62:10 الجمعہ
ترجمہ: "پھر جب تمام ہو جاۓ نماز تو پھیل پڑو زمین میں اور ڈھونڈو فضل اللہ کا اور یاد کرو اللہ کو بہت سا ، شاید تمہارا بھلا ہو۔"
اس آیت مبارکہ میں ایک اور بات بڑی وضاحت سے بیان کر دی گئی ہےکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوۓ بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو۔ جسکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری تجارت یا دیگر ذرا ئع حصول معاش اللہ کے چنے ہوۓ دین اسلام کے اصولوں کے مطابق ہوں اور تم اس موقع پر الٰہی ہدایات اور قوانین کو فراموش کر کے پس پشت نہ ڈالو۔ اسی میں تمہاری خیر اور بھلائی ہے۔
در اصل ایسا رزق جو اسلام کے بتلاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق حاصل کیا جاۓ اور انہی اصولوں کے مطابق خرچ کیا جاۓ، عین اسلام ہے۔ اس خاص پابندی کے ساتھ جتنا بھی مال کمایا جاۓ اور خرچ کیا جاۓ وہ اس شخص کے لئے باعث خیر و بھلائی ہے۔ نہ صرف دنیاوی زندگی میں بلکہ اخروی حیات میں بھی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ - 28:77 القصص
ترجمہ:" اور جو تجھ کو اللہ نے دیا اس سے پیدا کر پچھلا گھر اور نہ بھول اپنا حصہّ دنیا سے ۔ اور بھلا ئی کر جیسا اللہ نے بھلائی کی تجھ سے اور نہ چاہ خرابی ملک میں۔ اللہ پسند نہیں کرتا خرابی کرنے والوں کو۔"
اس آیت کریمہ میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کے دۓ ہوۓ رزق حلال سے تمہیں آخرت کی بہتری کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اگرچہ دنیاوی سہولت و آسائش کا حصول منع نہیں۔ اس مال حلال کو دنیا میں اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے باعث شرو فساد نہیں بنانا چاہئیے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ رزق حلال انسان کو دنیاوی کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی سے بھی ہمکنار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی مد میں ایک اور آیت پیش کی جاتی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ رزق کو ہی مقصد حیات بنا لیتے ہیں اور اس ضمن میں فکر آخرت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں وہ دراصل اپنے اعمال نیک پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
ترجمہ:"کہہ ، ہم بتا دیں تم کو کنکے اعمال گئے اکارت؟جن کی دوڑ بھٹک رہی ہے دنیا کی زندگانی میں اور وہ سمجھتے ہیں کہ خوب بناتے ہیں کام۔"
رزق حلال کی اہمیت اس قدر ہے کہ فقر کو برداشت کر لینے کی تاکید ہے لیکن اللہ کے بناۓ ہوۓ قانون کو پس پشت ڈالنے کی اجازت نہیں۔ جب حرم میں مشرکین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیاتو بعض مسلمان اس خدشہ کا اظہار کرنے لگے کہ اس طرح ہماری تجارت متا ثر ہو گی ۔ اس پر اللہ نے تسلی دی کہ تم ایسے وسوسوں سے متاثر نہ ہو۔ رزق کی فراہمی اللہ کے ذمہ ہے کیونکہ وہی مالک ہے رزق کا۔ تم اسکے احکام کو عملی جامہ پہناؤ، وہ تمہارے مسا ئل خود حل کر دیگا۔ چنانچہ یونہی ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں پر فتوحات کا ایسا دروازہ کھولا جس سے ایک طرف پورا جزیرہ٫ عرب اسلام سے منور ہو گیا اور دوسری جانب رزق حلال کی بہتات ہو گئی اور فقرو فاقہ کے اندیشے دور ہو گئے ۔ اسکا ذکر درج ذیل آیت میں کیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ - 9:28 التوبہ
ترجمہ: "اے ایمان والو، مشرک جو ہیں سو پلید ہیں۔ پس نزدیک نہ آویں مسجدا لحرام کے اس برس کے بعد اور اگر تم ڈرتے ہو فقر سے تو آگے غنی کریگا تم کو اللہ اپنے فضل سے اگر چاہے۔ اللہ ہے سب جانتا حکمت والا۔"
قرآن مجید کے علاوہ دوسرے بڑے ماخذ قانون اسلامی یعنی حدیث میں بھی رزق حلال کے موضوع پر درجنوں احادیث موجود ہیں جن میں اسکی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ مضمون کا اختصار اس بات کا متقاضی ہے کہ ان میں سے صرف نمونہ احادیث یہاں درج کی جائیں ۔ چنانچہ درج ذیل حدیث نے رزق حلال کی اہمیت کو اتنا بڑھایا ہے کہ مشتبہ اشیا٫ سے بھی بچنے کی تاکید فرمائی ہےـ
"عن ا لنعمان بن بشیرؓ قال قال النبیّﷺ الحلالُ بین ، والحرام بیّن وبینھما امور مشتبھۃ، فمن ترک ما شُبّہ علیہ من ا لاثم کان لما استبان اترک، ومن اجترأ علٰی ما یشکّ فیہ من ا لاثم او شکّ ان یُّواقع ما استبان، والمعاصی حمی اللہ، من یرتع حول ا لحمی یوشک ان یُّواقعہٗ"
صحیح البخاری (کتاب البیوع)
ترجمہ:"نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا ۔ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور انکے درمیان چند چیزیں مشتبہ ہیں۔ چنانچہ جس نے مشتبہ چیزوں کو چھوڑ دیا تو وہ انکو بھی چھوڑ دیگا جو صاف گناہ ہے ۔ اور جس نے ایسے کام کرنے کی جرأت کی جسکے گناہ ہونے کا شک ہوتو وہ کھلے ہوۓ گناہ میں مبتلا ہو جاۓ گا۔ اور گناہ اللہ کی چراگاہیں ہیں ۔ جو شخص چراگاہ کے ارد گرد جانور چراۓ تو ممکن ہےکہ اسکی چراگاہ میں داخل ہو جاۓ۔"
اس حدیث میں دراصل حلال کی اہمیت جتلانے کے ساتھ ساتھ حرام سے بچنے کی انتہائی مؤثر تدبیر بھی بتا ئی گئی ہے۔ کہ جو شخص حرام سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئیے کہ مشتبہ امور سے بھی دور رہے ۔ اس طرح اسکے حرام میں جا پڑنے کا خطرہ نہیں رہے گا۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث قدسی ہے جس میں حلال رزق کما کر اللہ کےبتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق خرچ کرنے والوں کے لئے رزق میں کشادگی کی خبر دی گئی ہے۔ چنانچہ جتنا کوئی خرچ کرےگا اتنا ہی اسے رزق میں وسعت نصیب ہو گی۔
عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال قال اللہ انفق یا ابن آدم انفق علیک۔ صحیح ا لبخاری (کتاب النفقات)
ترجمہ: "ابو ھریرۃ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا ؛ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم خرچ کر ، میں تیری ذات پر خرچ کروں گا۔"
اس حدیث میں حرام خرچ کرنے پر اشتباہ نہ کیا جاۓ کیونکہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اس میں حرام شامل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا صرف حلال مال ہی کے خرچ کرنے کا حکم ہے۔
ذیل میں ایک اور حدیث بیان کی جاتی ہے جس میں حرام کو اپنے اور اللہ کے ساتھ دھوکہ کر کے کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہود کی طرح مت رویہّ اختیار کرو جو اللہ کی طرف سے حرام کی گئی اشیا٫ کو حیلے بہانے سے حلال کر لیتے تھے۔
سمعت جابر بن عبداللہ سمعت ا لنبیﷺ قال قاتل اللہ ا لیہود لماّ حرّم اللہ علیہم شحومہما جملوہ ثمّ باعوہ قاکلوھا۔ صحیح ا لبخاری (کتاب التفسیر)
ترجمہ: "جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول ا للہﷺ کو فرماتے ہوۓ سنا کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک کرے کہ جب چربی ان پر حرام کر دی گئی تو انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور اسکی قیمت وصول کی اور اسکو تیل کہنے لگے اور اس طرح اسے کھایا۔ "
جان لینا چا ہیۓ کہ اللہ تو "علیم و خبیر" ہے۔ وہ زمین اور سمندر کی گہرائیوں تک سے واقف ہے اسلئے وہ ایسے حیلہ سازوں کے دھوکے سے خوب واقف ہے۔ پس ایسا کرنا دراصل خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ایسا شخص بزعم خود بڑا عقلمند بنتا ہے لیکن اسکی نیت اور عمل کو اللہ ربّ العزت خوب جانتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رزق حلال سے استفادہ کی توفیق نصیب فرماۓ، آمین
TO BE CONTINUED........
Click here to VIEW this book.
Click here to DOWNLOAD this book.
Comments