![](https://static.wixstatic.com/media/a4fde3_b981f3d5357641af976f2162b4a2b6d2~mv2_d_6297_8910_s_4_2.jpg/v1/fill/w_980,h_1387,al_c,q_85,usm_0.66_1.00_0.01,enc_avif,quality_auto/a4fde3_b981f3d5357641af976f2162b4a2b6d2~mv2_d_6297_8910_s_4_2.jpg)
۶- رشوت و کمیشن:
ہمارے معاشرے میں رشوت و کمیشن اتنے عام ہو چکے ہیں اب اسے کوئی بُرائی ہی نہیں سمجھا جاتا۔ کھلے عام رشوت کا لین دین ہوتا ہے اور بغیر کسی روک ٹوک کے کمیشن کی شرح مقرر کی جاتی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کوئی کام جائز طور پر نہیں ہو پاتا مگر رشوت دیتے ہی معاملہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ انتہائی غلط کام بھی کرانا ہو تو رشوت کے بل بُوتے کرایا جا سکتا ہے۔ ہر قسم کا سرکاری کام حاصل کرنے کے لئے متعلقہ محکمہ کوخاص شرح سے مقرر کیا گیا کمیشن ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ دراصل رشوت ہے ۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بعض محکموں میں یہ کمیشن پچھتر فیصد کی شرح سے بھی وصول کیاجاتا ہے۔ باقی پچیس فیصد میں سے ٹھیکیدار کا منافع نکالنے کے بعد کام کے گھٹیا معیار کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ملک اور قوم کے خزانے کی جڑیں کھوکھلی کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے رشوت کیلئے "سُحت" کا لفظ استعمال کیا ہے جسکا مطلب ہے "جڑ سے اُکھیڑ دینا"۔
لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ …- 5:63 المائدہ
ترجمہ:" کیوں نہیں منع کرتے انکے درویش اور ملّا گناہ کی بات کہنے سے اور حرام کھانے سے۔۔۔"
اگرچہ یہ آیت یہود کے متعلق نازل ہوئی ہے لیکن حکم سب کے لئے ہے ۔ گناہ سے بچنے اور حرام کھانے بشمول رشوت سے منع کرنا ضروری ہے۔ آج اگرچہ گاہے بگاہے ہمارے مذہبی پیشوا اور رہنما رشوت اور کمیشن کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں لیکن معاملہ "دیگراں را نصیحت خود ملّا فصیحت" والا ہے۔ یہ لوگ خود اپنے کام کروانے کے لئے رشوت کا سہارا لینے پہ مجبور ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رشوت کے خلاف انکی آواز میں وہ زور نہیں جو ہونا چاہئیے۔ جب ہی تو انکی آواز دبی رہ جاتی ہے۔ حالانکہ اسکے خلاف باقا عدہ تحریک کی شکل میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصاً مذہبی رہنماؤں کا اولین فرض ہے کہ وہ عوام کو اس برائی کے خلاف تعلیم دیں تا کہ ان میں اتنا شعور پیدا ہو کہ وہ رشوت کے لین دین سے بچنے کی کوشش کریں۔ قرآن نے بتا دیا ہے کہ
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ ۔۔۔۔۔۔- 5:2 المائدۃ
ترجمہ:"اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور زیادتی پر۔"
لیکن آج معاملہ اُلٹ چکا ہے۔ نیکی میں تعاون تو بہت کم لوگ کرتے ہیں لیکن گناہ میں ہر کوئی دوڑ کر آتا ہے۔ خصوصاً رشوت اور کمیشن لینے والوں کے مقابلہ میں دینے والے زیادہ بے قرار نظر آتے ہیں۔ جہاں رشوت کے بغیر ہی کام ہونے کی امید ہو وہاں بھی نوٹ لئے ہوئے دینے کے لئے بے تاب پھرتے ہیں کہ رشوت لے لو لیکن کام جلدی کرو۔ یہ گناہ اور زیادتی میں تعاون کی بہترین مثال ہے۔ اللہ جلّ جلالہ نے اس سے منع فرمایا ہے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے۔ بلکہ اسی آیت کے آخر میں یہ بھی فرمایا کہ اللہ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ بظاہر تمہیں یہ معمو لی گناہ نظر آتا ہے لیکن جب اللہ کے غضب کا شکار ہو گے تو دنیا وآخرت میں بد ترین ذلّت اور عذاب سے دوچار کر دئے جاؤ گے۔ اسلئے اس سے بچتے رہو۔
۷-چوری و خیانت:
چوری یہ ہے کہ کسی دوسرے کے قبضہ سے اسکامال اڑا لینا۔ خیانت یہ ہے کہ کسی دوسرے کا امانتاً رکھا ہوا مال پورا یا کچھ حصہ ہڑپ کر لینا۔ دونوں صورتوں میں حاصل کیا گیا مال حرام ہے اور اسکا استعمال جائز نہیں۔ اللہ کا فرمان ہے۔
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ - 2:188 البقرۃ
ترجمہ:"اور نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کے آپس میں ناحق اور نہ پہنچاؤ انکو حاکموں تک کہ کھا جاؤکاٹ کر لوگوں کے مال میں سے مارے گناہ کے اور تم کو معلوم ہو۔"
یہ آیت ہر طرح کے حرام مال کا احاطہ کرتی ہے۔ ظلم، دھوکے، فریب اور دیگر ذرائع سے پرایا مال مت کھاؤ اور نہ ہی کسی کے مال کو حاکموں کے آگے لوٹنے کے لئے پیش کرو۔اس میں رشوت بھی آ جاتی ہے اور سرکاری مال کا بے جا استعمال بھی آتا ہے۔ جو سرکاری اہلکار اپنے افسران کو خوش کرنے کے لئے انکے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اسے فرمایا کہ یہ بہت ہی گناہ کی بات ہے۔ پس ضروری ہے کہ چوری وخیانت روکنے کے لئے وقت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مؤثر اقدامات کئے جائیں ۔
۸- منشیات:
کلُّ مسکر حرام ۔منشیات خواہ کسی بھی صورت میں ہوں معاشرہ کو مفلوج کر دینے کا باعث بنتی ہیں۔ نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ زہنی طور پر بھی۔ جسکی وجہ سے نشئی لوگ صحت مند معاشرہ پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ نشہ کی ابتدا سگریٹ، پان، نسوار اور بیڑی وغیرہ سے ہوتی ہے اسلئے ضروری ہے کہ پہلے مرحلہ میں ان چیزوں کے پبلک مقامات پر استعمال پر پابندی لگا دی جائے۔ ان میں پبلک ٹرانسپورٹ، ہوئی اور بحری جہاز، سینما ہال، بازار، پارک اور باغات وغیرہ شامل ہیں۔ دو عملی ختم کر کے منشیات کے خلاف حقیقی جہاد کا آغاز کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں سگریٹ کے دلکش اور سحر انگیز اشتہارات پر بھی پابندی لگا دینا چاہئیے۔ جب تک تمباکو کا استعمال بند نہیں کرایا جاتا اس وقت تک دیگر منشیات پر پابندی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کیونکہ چرس اور ہیروئن جو بکثرت استعمال ہونے والی منشیات ہیں ، کا استعمال تمباکو کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر تمباکو کے استعمال پر قابو پا لیا جائے تو کم از کم یہ دو نشے خود بخود ختم ہو جائینگے۔
الکحل اور شراب کشید کرنے اور اسکی خریدوفروخت کے علاوہ استعمال پر بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق مکمل پابندی ہونی چاہئیے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز رکھنا بھی ضروری نہیں اسلئے کہ بیشتر غیر مسلم مذاہب بھی اسکے استعمال کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ جب غیر مسلم کے لئے اجازت دی جاتی ہے تو اسکی آڑ لے کر نا عاقبت اندیش مسلمان بھی اسکا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ "گربہ کشتن روز اوّل" کے مصداق ایسا موقع ہی نہ فراہم کیا جائے جو شراب نوشی کے لئے جواز بن سکے۔ سرکاری ایجنسیاں عموماً تمباکو اور شراب کے لا ئسنسوں کے اجرا٫ کے لئے یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ اس سے حکومت کو بہت بڑی آمدن ہوتی ہے۔ یہ جواز ضعف ایمان پر دلالت کرتا ہے۔ اوّل تو حرام تجارت کی آمدن بھی حرام ہے ۔ دوم یہ کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہئیے۔ بھوک کے خوف سے غلط ذرائع نہیں اختیار کرنا چاہئیں۔
اسکے علاوہ پڑھے لکھے طبقہ میں طبّی ادویات بھی بطور نشہ استعمال کی جاتی ہیں جو کہ دیگر منشیات کی طرح ہی نقصان دہ ہیں۔ ان میں گولیاں، شربت اور انجکشن شامل ہیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ میڈیکل سٹوروں کے لئے ایسے قوانین وضع کئے جائیں کہ وہ ایسی ادویات سوائے ضرورتمند مریض کے کسی کو نہ دے سکیں۔
جب تک منشیات کا مکمل خاتمہ نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک معاشرہ کی صحتمند بنیادوں پر ترقی کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ نشہ انسانی صلاحیتوں کا خاتمہ کر دیتا ہے اور تخلیقی قوتوں کو مفقود کر دیتا ہے۔ ماضی قریب میں چین کے اندر افیون کے بے بہا استعمال نے جس طرح اس قوم کو تنزّل کا شکار بنا رکھا تھا وہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ لیکن جُوں ہی اس قوم کے سمجھ بُوجھ والے لوگوں نے اس سم قاتل کے خلاف انتھک جہاد شروع کیا تو یہ بُرائی جڑ سے اکھیڑ دی گئی۔ اور آج چین دنیا کے صف اوّل کے ممالک میں شامل ہے۔
یہ ایک خطرناک حقیقت ہے کہ نشہ کا رجحان ضرب عددی کی صورت میں پھیلتا ہے اور بہت جلد وسیع حلقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسکا زیادہ تر شکار نوجوان بچے بنتے ہیں جو معاشرے کی صحتمند سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لے پاتے۔ ایسے لوگوں کو منشیات سے بچانے کے لئے ہمہ پہلو جدّوجہد کی ضرورت ہے۔ ایک طرف منشیات کی روک تھام کے لئے اقدامات اور دوسری طرف منشیات کے خلاف شعور و آگہی پیدا کرنا جبکہ تیسری جانب وسیع پیمانے پر صحتمند سرگرمیوں کا فروغ مددگار ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح منشیات بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے والوں کے لئے عبرتناک سزائیں بھی مقرر کرنا ضروری ہیں تاکہ منشیات کےلئے نرم گوشہ رکھنے والوں کو بھی عبرت ہو اور وہ اس بُرائی سے بچے رہیں۔
۹-تعلیمات اسلامی میں تفقّہ:
موجودہ دور کے معاشرے میں رزق حلال کو زیادہ اہمیت نہ دئے جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگوں کو اسکی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ وہ اسے محض معیشت کا ایک حصّہ سمجھتے ہیں اور اُنکے نزدیک اسلام صرف عبادات کی حد تک محدود ہے۔ جو لوگ اسلام کو ہمہ جہت دین خیال کرتے بھی ہیں اُنکے اندر بھی ایک طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جو اسلامی تعلیمات سے مکمل واقفیت نہیں رکھتا ۔ اسی وجہ سے اس پر مکمل عمل کو نا ممکن خیال کرتا ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ معاشرے کے ہر طبقہ کے اندر تعلیمات اسلامی کو عام کیا جائے۔ سکول و کالج کی سطح پر بھی نصاب کو اس طرح ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو کتابوں کا بوجھ کم کرتے ہوئے با مقصد مواد پر مشتمل ہو اور ساتھ ہی اسلامی تعلیمات سے بھرپور ہو۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
"حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے کہ جناب ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص سے اللہ محبت کرتا ہے اور اُسکے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اُسے دین اسلام میں تفقّہ نصیب فرماتا ہے۔" (الحدیث)
اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی بھلائی اور خیر اسلامی تعلیمات میں سمجھ بُوجھ رکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو وہ ان احکامات پر صحیح طور سے عمل پیرا ہو کر آخرت کی کامیابی حاصل کرتا ہے۔ دوسرے اسلامی احکامات کے فطرت سے مطابقت رکھنے کی وجہ سے دنیاوی فوائد بھی حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح حلال وحرام کی تشخیص اور پھر اس پر عمل کرنے سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے۔
۱۰- کسب حلال میں حکوت کا کردار:
حلال کے حصول اور حرام سے بچاؤ میں حکومت کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ گزشتہ صفحات میں جتنے طریقے بھی حلال کے حصول کے لئے لکھے گئے ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق حکومت سے ہے۔ اگر حکومت اس میں دلچسپی نہ لے تو ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ قرآن کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حکومت کے فرائض میں سے ہے اور کسب حلال اسی فرض کے ذیل میں آتا ہے۔ ویسے بھی لوگ حکومت کی پالیسی سے بہت متاثر ہوتے ہیں ۔الناسُ علٰی دین مُلوکھم۔ چنانچہ حکومت کو چاہئیے کہ اس سلسلے میں ترجیحی بنیادوں پر مہم چلائے ۔ لوگوں کے اندر کسب حلال اور حرام سے بچاؤ کے لئے اسلامی احکامات کو پھیلایا جائے۔ ان قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں تا کہ باقی لوگوں کو بھی عبرت ہو۔
چین جیسے ملک میں رشوت اور کمیشن لینے والوں کو سزائے موت دے دیجاتی ہے لیکن ہمارے ہاں اسے کوئی برائی ہی نہیں سمجھا جاتا جبکہ ہمارے دین میں اسے نہ صرف حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ معاشرے کی جڑیں اکھیڑ دینے والی چیز کہا گیا ہے۔ اسی طرح چوری اور ڈکیتی کے لئے اسلامی سزائیں ہیں جن میں ہاتھ کاٹنا بھی شامل ہے لیکن آج تک کسی چور کو نہیں سنائی گئی اور اسے غیر انسانی قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالٰی سے زیادہ اسکے بندوں کی محبت رکھنے والا کوئی نہیں ۔ جب اللہ خود فرماتا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو تو اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔ لیکن ہماری نا عاقبت اندیشی ہمیں ان سنہری تعلیمات سے دور رکھے ہوئے ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رزق حلال کمانے اور اسکے جائز انفاق سے فیضیاب ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اسکے ساتھ ساتھ ہر قسم کے چھوٹے بڑے حرام سے بچنے کی طاقت عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔واٰ خر دعوانا ان ا لحمد للہ ربّ العالمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Click here to VIEW this book.
Click here to DOWNLOAD this book.
Comments