top of page

رزق حلال |Rizq e Halal series (Part-11)

Writer's picture: Anayat BukhariAnayat Bukhari

Read to ensure that you are consuming Halal

رزق حلال کیلئے جہاد کی ضرورت اور طریقے


جب یہ معلوم ہو گیا کہ حرام سے بچنے اور حلال پر گزارہ کرنے کے لئے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر یہ فیصلہ بھی خود بخود ہو جاتا ہے کہ کسب حلال ناممکن نہیں البتہ مشکل ہو سکتا ہے۔اس کے بعد یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ حرام سے بچنے اور اور حلال کے حصول کے لئے جہاد کیا جائے تا کہ معاشرے میں حرام جیسے ناسور کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ ایسا ناسُور ہے جو معاشرہ کی اعلیٰ اقدار برباد کر کے اسے تنزّل کا شکار کر دیتا ہے۔ چنانچہ ہر ذمہّ دار فرد کا فرض ہے کہ وہ معاشرہ کی بقا٫ کے لئے اس جدّو جہد میں اپنا حصّہ بقدر جثّہ ڈالے۔ تب ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کی دعا ؤں کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کونسے بنیادی اصول ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی دنیا اور آخرت سنوار سکتے ہیں۔ ذیل میں ہم فرداً فرداً ان اصولوں کو قدرے تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔(وبا للہ التوفیق)


۱-خوف خدا:

رزق حلال کی جستجو کے لئے خوف خدا بنیادی شرط ہے۔ اسکے بغیر کوئی شخص حرام سے بچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ اسلئے اسے رزق حلال کے لئے پاپڑ بیلنے کی بھی کوئی حاجت نہیں ہوتی۔ جوں ہی کوئی شخص دائرہ اسلام کے اندر داخل ہوتا ہے اُسے اللہ کی حدود کا بھی احترام کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ حلال و حرام کی پہچان کرنا اور انکے متعلقہ احکام کی تعمیل کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھنے والے لوگ بھی حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھے ہیں جسکی وجہ سے معاشرہ کا اسلامی تشخّص مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالٰی نے تاکیداً تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ - 3:102 اٰل عمران

ترجمہ:"اے ایمان والو؛ ڈرتے رہو اللہ سے جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم نہ مرو مگر اسلام کی حالت میں۔"


صرف زبانی کلمہ پڑھ لینا اور اللہ کو مان لینا کافی نہیں بلکہ اللہ کی الوہیت پر تمہارے کامل ایمان کا اظہار تمہارے عمل سے ہونا چا ہئیے۔ اسی چیز کی وضاحت کے لئے "ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہ ڈر تب ہی حقیقی ثابت ہو سکتا ہے جب انتصال اوامر اور اجتناب نواہی پر مداومت کرنے کی کوشش کی جائے۔

اسی ذیل میں رزق کا معاملہ بھی آتا ہے کہ حلال ذرائع سے حاصل کیا جائے اور حرام ذرائع سے بچا جائے۔ یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ خوف خدا پیدا کرنے کے لئے فکر آخرت بہترین طریقہ ہے۔ ہر روز چند لمحات ہی کے لئے سہی ، موت اور اسکے بعد کے حساب کتاب کا مراقبہ کرنا چاہئیے تا کہ خدا خوفی دل میں گھر کر جائے۔ اسکے حصول کیلئے نہ ہی لمبی چوڑی قانون سازی کی ضرورت ہے اور نہ ہی قانونی جکڑ بندیاں اس میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور کرتا ہے اور نیک لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ جس قدر ایک شخص دین اسلام کی تعلیمات سے واقفیت رکھے گا اتنا ہی زیادہ خدا خوفی کا مظاہرہ کر تے ہوئے رزق حلال کیلئے جدّوجہد کرنے کی خواہش کریگا۔


۲-تقدیر پر ایمان:

حلال پر قناعت کے لئے ایمانیات میں سے دوسری بنیادی چیز تقدیر پر ایمان ہے۔ جب تک یہ یقین پختہ نہیں ہو جاتا ، نفس انسانی مال کی لالچ کرتا رہتا ہے۔ اسکی یہ طمع اسے حرام میں ملوّث کرنے کا باعث رہتی ہے۔ اسی لئے اللہ جلّ جلالہٗ نے انسان کو محنت کی ترغیب دینے کے لئے ارشاد فرمایا:

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ - 53:39 النجم

ترجمہ:"اور یہ کہ آدمی کو وہی ملتا ہے جس کے لئے محنت کی۔"


یعنی ایک مقصد کے لئے جتنی محنت کرو گے اسکے مطابق اجر پاؤ گے۔ لیکن ایک دوسری آیت میں یہ وضاحت فرما دی کہ تمہیں راضی برضائے الٰہی ہونا چاہئیے۔ اللہ جلّ شانہٗ اپنی مرضی و منشا٫ کے مطابق انسانی محنت کا پھل دیتے ہیں۔ گو کہ اسے محنت کا اجر ملے گا لیکن اجر کی صورت مختلف ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص صدقات و خیرات کرتا ہے تا کہ زیادہ مال ملے لیکن اللہ تعالیٰ اسکے بدلے دنیا میں مال نہ دیں بلکہ اسکے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دیں۔ چنانچہ یہاں صورت بدل گئی مگر اجر ضرور ملا۔ جب اس بات پر انسان کا یقین کامل ہو تو پھر وہ حرام کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا بلکہ تنگدستی کے باوجود حلال روزی ہی کو ترجیح دیتا ہے۔ اسکی تاکید قرآن مجید میں یوں فرمائی گئی ہے۔


مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ - لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ – 57:22-23 الحدید

ترجمہ:"کوئی آفت نہیں پڑی ملک میں اور نہ آپ تم میں ،جو نہیں لکھی ایک کتاب میں پہلے اس سے کہ ہم پیدا کریں اسکو دنیا میں ۔ بے شک یہ اللہ پر آسان ہے ۔ تا کہ تم غم نہ کھایا کرو اُس پر جو ہاتھ نہ آیا اور نہ ریجھا کرو اُس پر جو تم کو اس نے دیا۔"


یعنی دنیا میں ہر واقعہ جو کسی شخص کے ساتھ رونما ہونے والا ہے پہلے سے اللہ کے پاس ایک کتاب میں لکھا ہے۔ اسی کو تقدیر کہتے ہیں۔ لیکن یہ اس طرح لکھا اس لئے گیا ہے کہ اللہ کے علیم اور خبیر ہونے کی صفت اسکا تقاضہ کرتی ہے۔ اللہ اپنے وسیع علم کی بنا پر کسی شخص کی سرشت اور خصلت کو دیکھ کر اسکے آئندہ اعمال کا بتا دیتا ہے کہ یہ اعمال نیک ہونگے یا بد ۔ یہی چیز کتاب میں لکھ دی جاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لکھنا اللہ پر آسان ہے۔ چونکہ اللہ وسیع علم رکھتا ہے اسلئے پہلے سے ہی آئندہ ہونے والے واقعات کا علم رکھتا ہے۔ پھر آگے اس لکھے جانے کی حکمت بتائی کہ اس لکھے جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟چنانچہ فرمایا کہ اے انسانو؛ یہ تمہاری ہی بھلائی کے لئے لکھے گئے ہیں اور یہ بھلائی اس طرح ہے کہ تم اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لو ، نہ کہ اپنی بڑائی پر غرور کرو۔ اسکی وضاحت یوں فرمائی کہ اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کر لو اور اگر کوئی خوشی پہنچے تو اللہ کی طرف سے تقدیر کا لکھا سمجھو، نہ کہ اترانے لگو۔ رزق حلال کے حوالے سے اسکی تشریح یوں کی جائے گی کہ جب تم رزق حلال پر گزارہ کرنے کے باوجود تنگ دست رہو تو تقدیر کا لکھا سمجھ کر صبر کرو۔ اس پر تمہیں کسی دوسری صورت میں بدلہ دیا جائے گا۔ اور اگر تمہیں دنیا ہی میں رزق حلال کمانے اور کھانے کا بدلہ دے دیا جائے اور تم دولت و ثروت حاصل کر لو تو تکبّر کرتے ہوئے اسے اپنا کمال نہ سمجھو بلکہ اسے بھی تقدیر کا لکھا سمجھ کر عاجزی و انکساری کا اظہار کرو۔ اور اس مال کو اللہ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اسی کے احکامات کے مطابق خرچ کرو۔


۳-اخوّت و مساوات:

حرام کا دروازہ بند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو یکساں بنیادی حقوق حاصل ہوں ۔ سرکاری طور پر بھی تمام شہریوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سلوک کیا جائے۔ سوسائٹی کے اندر ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ امیر غریب اور اعلٰی ادنٰی کی تفریق ختم ہو جائے۔ مزدور اور سرمایہ دار کارخانہ دار ایک جگہ بیٹھ سکیں ۔ افسر اور ماتحت دفتر کے بعد بہم میل جول کو ڈسپلن کی خلاف ورزی نہ سمجھیں ۔ حکومت کے وزیر مشیر جھنڈے والی گاڑی میں بیٹھ کر عوام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا چھوڑ دیں ۔ علٰی ہذا لقیاس سوسائٹی کے تمام طبقات کے اندر بڑے چھوٹے کی تقسیم دولت اور عہدہ کی بنا ٫ پر نہ کی جائے بلکہ عمر اور تقویٰ اسکا معیار ہو۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے۔


إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - 49:10 الحجرات

ترجمہ:"مسلمان جو ہیں آپس میں بھائی ہیں ۔ سو صلح کرا دو اپنے دو بھائیوں میں"۔


یعنی جب مسلمان آپس میں بھائیوں جیسا رشتہ رکھتے ہیں تو یہ تب ہی حقیقی رُوپ دھار سکتا ہے جب انکے درمیان ہر طرح کی اصلاح ہو۔ سب ایک دوسرے کی بھلائی سوچیں اور اسکے لئے کوشاں بھی ہوں۔ عموماً بھائی ایک دوسرے کا حق نہیں مارتے اور نہ ہی ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ۔ پس جب معاشرے کے تمام افراد میں بھائی چارہ ہو گیا تو پھر ظلم اور حق تلفی کا یقینی خاتمہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی اس بھائی چارے کو مستحکم کرنے کے لئے مؤثر تدبیر بتائی گئی ہے۔

قال النبیُ ﷺ لا یُومن احدکم حتٰی یحب لاخیہ ما یُحبّ لنفسہٖ۔ الحدیث (اربعین جامی)

ترجمہ:"نبی ﷺ نے فرمایا ۔ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہ چیز پسند نہیں کر لیتا جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔"


جب خود رشوت دینا پسند نہیں کرتا تو دوسروں سے کیوں طلب کرتا ہے ، جب اپنے ساتھ دھوکہ و فریب بُرا سمجھتا ہے تو دوسروں کے ساتھ کیوں کرتا ہے ، جب اپنے مال میں خیانت برداشت نہیں کرتا تو دوسروں کے مال میں خیانت کیوں جائز سمجھتا ہے، جب اپنے ملازم کی کام چوری سے تنگ ہے تو اپنے مالک کی کام چوری بھی نہ کرنا چاہئیے۔ غرضیکہ جتنے بھی باہمی معاملات ہیں سب کےسب میں وہی رویّہ قابل قبول ہے جو کہ کسی شخص کو اپنے لئے پسند ہو۔ اگر معاشرے کے تمام افراد نہ سہی بیشتر ہی اس بھائی چارے کو قبول کر کے اس پر عمل کرنے لگیں تو اکتساب حلال کے راستہ سے تمام رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔

۴-احساس فرض:

رزق حلال کا حصول اپنے فرائض کا احساس کئے بغیر ممکن نہیں۔ معاشرے کے ہر فرد کو اپنے ذمہّ فرائض کی ادائیگی کا احساس کر کے احسن طور پر انہیں ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہئیے۔ خواہ یہ فرائض کتنی ہی معمولی نوعیت کے کیوں نہ ہوں۔ آجر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اجیر کی مزدوری پوری ادا کرے اور اسکا حق مارنے کی کوشش نہ کرے۔

اُعطو الاجیر اجرہٗ قبل ان یحف عرقہٗ۔ الحدیث (ابن ماجہ)

ترجمہ:" مزدور کی اُجرت اسکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔"


اسی طرح اجیر کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق پورا کام کرے اور کام چوری کرنے کی کوشش نہ کرے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُ- 5:1 المائدہ

ترجمہ:"اے ایمان والو؛ پورا کرو اپنے قرار۔۔"۔



اب دیکھا جائے تو ہر شخص بیک وقت آجر بھی ہے اور اجیر بھی۔ کیونکہ بعض کام وہ دوسروں کیلئے کرتا ہے اور بعض دوسرو ں سے کرواتا ہے۔ لہٰذا ہر دو پہلوؤں پر اسے تعلیمات اسلامی کے مطابق عمل کرنا چاہئیے۔اگر کسی کا کام کررہا ہے تو یہ اسکے ذمہ فرض ہے کہ اس کام کو بھر پور طور پر کرتے ہوئے کام چوری سے بچے۔ اسکی مثال مزدور، ڈاکٹر، معلم، تاجر، طالب علم اور حکمران وغیرہ ہیں۔ ہر ایک کے ذمہ مخصوص فرائض ہیں اور انکی ادائیگی میں کوتاہی انکے رزق کو مشکوک بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر مزدور پوری تنخواہ لینے کے باوجود پورا وقت نہیں لگاتا یا کام تو کرتا ہے لیکن پوری دلجمعی سے نہ کرنے کی بنا٫ پر مالک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ڈاکٹر مریضوں کی خدمت اور انہیں طبّی امداد دینے سے زیادہ مال اکٹھا کرنے اور اپنے آرام کا خیال رکھنے لگے تو اسکے رزق میں حرام کی آمیزش ہونے لگتی ہے۔ معلم ٹیوشن کی صورت میں زائد آمدن کی لالچ میں کلاس کے اندر طلبہ کو پوری توجہ اور لگن سے نہ پڑھائے یا اپنے ٹیوشن والے شاگردوں کی سکول میں ایسی رعایت کرے جو باقی طلبا٫ کی حق تلفی ہو ۔ تاجر مختلف اشیا٫ میں ملاوٹ کرے یا عیب دار چیز بیچتے ہوئے قصداً عیب مخفی رکھے یا مال مہنگا کرنے کی خاطر ذخیرہ کر لے۔ ۔ طالب علم پڑھائی پر بھر پور توجہ دینے کی بجائے سیاست اور ہلڑ بازی میں ملوّث ہو جس سے اسکی تعلیمی استعداد متاثر ہو ۔ حکمران اپنے ذمہّ فرائض میں کوتاہی کرتے ہوئے ملک کو فساد میں مبتلا کر دے تو یہ تمام چیزیں انکے رزق کو حرام سے متاثر کرتی ہیں۔ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:


الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ - 22:41الحج

ترجمہ:" وہ کہ اگر ہم اختیار دیں انکو ملک میں ، کھڑی کریں نماز اور دیں زکٰوۃ اور حکم کریں بھلے کام کا اور منع کریں بُرے سے۔ اور اللہ کے اختیار میں ہے انجام ہر کام کا۔"


یعنی مسلما ن حکومت کا فرض ہے کہ نظام عبادات، نظام معاشیات کے قیام کے ساتھ نیکی وبھلائی کے پھیلاؤ اور بدی کے روکنے کیلئے اقدامات کرے۔ اگر کریں گے تو اسکا انجام رزق حلال کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن اگر یہ فرائض ادا نہیں کریں گے تو ا یسے مسلمان حکمرانوں کا رزق مکمل حلال نہیں قرار دیا جا سکتا۔ پس ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ذمہ ّ فرائض کو خوش اسلوبی سے بجا لانے کی کوشش کرے تاکہ حرام سے بچ سکے۔


اسی طرح اگر ایک شخص کسی سے کام کروا رہا ہے تو اسکی اُجرت اور آرام کا خیال رکھے ۔ مثلاً گھریلو ملازم ، دفتر میں ماتحت، سرکاری ملازمین وغیرہ ۔ رسول کریم ﷺ نے بڑی وضاحت کے ساتھ ملازمین کے ساتھ رویّہ کو بیان فرمایا ہے۔


"تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ نے تمہارا زیردست کیا ہے۔ لہٰذا جس شخص کا بھائی اسکا ما تحت ہو اسے چاہئیے کہ جو کچھ وہ خود کھائے اس میں سے اسے بھی کھلائے اور جو خود پہنے اسی میں سے اسکو بھی پہنائے۔ اور ان پر کسی ایسے کام کا بوجھ نہ ڈالو جو انکی طاقت سے زیادہ ہو۔ اور اگر کسی ایسے کام کا بوجھ ڈالو تو خود انکی مدد کرو۔" (صحیح بخاری)


اس حدیث سے وہ مالکان سبق حاصل کریں جو ملازمین کو غلام سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ افسران کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کے علاوہ انکے پورے حقوق یقینی بنانا چاہئیں۔ جب یہ طریقہ اختیار کیا جائے گا تو خود بخود رشوت ، کمیشن اور لالچ و حرص جیسے حرام امور کا خاتمہ ہو جائے گا۔ جب جائز اور حلال ذرائع سے انسان کی ضروریات پوری ہونے لگیں تو حرام کی طرف توجہ نہیں رہتی۔ ایسے میں کوئی بڑا بد نصیب انسان ہو گا جو حلال کے وافر ہونے کے باوجود حرام کی طرف لپکے۔


۵- دھوکہ و فریب سے اجتناب:

اچھی بھلی حلال چیز کو جب دھوکہ سے حاصل کیا جاتا ہے تو اسکا استعمال حرام ہو جاتا ہے۔ یہ دھوکہ ملاوٹ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور جعلی مال تیار کر کے بیچنے کی صورت میں بھی ۔ پس لین دین میں بھی کئی طرح کے دھوکے فریب دئے جاتے ہیں جن میں جھوٹی قسموں کا بکثرت استعمال بھی شامل ہے۔ ملاوٹ کی صورت میں دھوکہ دینے کے بارے میں جناب ﷺ کی درج ذیل حدیث بڑی مشہور ہے۔


من غشّ فلیس منّا۔ الحدیث

ترجمہ:"جس نے کھوٹ ملایا وہ ہم میں سے نہیں"

قسم کے متعلق یوں ارشاد فرمایا۔

عن ابی ھریرۃؓ قال سمعتُ رسول اللہ ﷺ یقول الحلفُ یُنفّقۃ للسّلعۃ ممعقۃ للبرکۃ۔ صحیح البخاری (کتاب البیوع)

ترجمہ:" ابو ھریرۃؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ قسم سے مال بک جاتا ہے مگر برکت چلی جاتی ہے۔"


پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب ایک آدمی اپنے ساتھ دھوکہ و فریب پسند نہیں کرتا تو اسے کسی دوسرے سے بھی نہیں کرنا چاہئیے ۔ اگر دھوکہ و فریب معاشرہ سے ختم ہو جائے تو حرام کا ایک بڑا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔

TO BE CONTINUED..


Click here to VIEW this book.

Click here to DOWNLOAD this book.


42 views0 comments

Recent Posts

See All

Comments


© 2019 by Anayat Bukhari

bottom of page