top of page

رزق حلال |Rizq e Halal series (Part-1)

Writer's picture: Anayat BukhariAnayat Bukhari

Updated: May 27, 2018


Read to ensure that you are consuming Halal

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ - 20:81

طٰہٰ

ترجمہ:" کھاؤ ستھری چیزیں جو روزی دی ہم نے تم کو اور نہ کرو زیادتی اس میں، پھر اترے تم پر میرا غصّہ اور جس پر اترا میرا غصّہ وہ تباہ ہوا۔"

مفہوم


بنیادی طور پر یہ آیت کریمہ بنی اسراِ ئیل پر من و سلویٰ اتارے جانے سے متعلق ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ نےیہ نعمت عطا فرمائی تو ساتھ حکم دیاکہ اس پاکیزہ رزق سے استفادہ کرو لیکن زیادتی نہ کرو اور پھر مزید تنبیہ فرما دی کہ یاد رکھو زیادتی کرنے والوں پر میرا غصہّ میرے عذاب کی صورت میں ظاہر ہو گا جو کہ یقیناً بندوں کی تباہی پر منتج ہو گا۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن مجید تا قیامت انسان کی ہدایت کا سر چشمہ ہےاور اس میں بیان کئے گئے حالات و واقعات اور قصّے کہانیاں دراصل نصیحت اور عبرت کے حصول کے لئے ہیں۔ پس ہمیں اس آیت کو اسی نکتہء نظر سے دیکھنا چاہئیے اور ذرا تفصیلاً اس میں احکام کا جائزہ لینا چاہئے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: پنہاں

کلوا یعنی کھاؤ۔ یہ لفظ دراصل بہت ہی وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں کھانے پینے کے علاوہ پہننے کےلئےکپڑے جوتے، رہنے کے لئے مکان و محل، سفر کیلئے سواری و زاد راہ، تفریح کے لئےمختلف مروّج و دستیاب نعمتیں اور زندگی کو پر آسا ئش بنانے کے لئے درکار مختلف وسا ئل سے استفادہ سب ہی کچھ شامل ہیں۔ لیکن اسے ایک خاص ضابطہ کار کے تحت کر دیا یعنی

من طیبات صرف پاکیزہ و حلال نعمتوں کو استعمال کرو۔ حلال وحرام کی تمیز برقرار رکھتے ہوئے صرف اللہ کی طرف سے بیان کردہ حلال وسا ئل اور نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ۔ خواہ یہ کھانے پینے کی چیزیں ہوں، پہننے کے لئے لباس ہو، رہنے کے لئے مکان ہو، سفر کے لئے سواری ہو یا تفریح طبع کے لئے لوازمات ہوں۔ آگے بیان ہوتا ہے

ما رزقناکم جو روزی ہم نے دی تم کو۔ ان الفاظ میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ روزی صرف وہی ہےجو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہے۔ کیونکہ وہی مالک کل کائنات ہے اور وہی رزّاق ہے۔ اسکے علاوہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی کوئی بھی نعمت روزی نہیں ہے۔ دوسروں کے حقوق چھین کر حاصل کردہ مال رزق نہیں کہلا سکتا۔ البتہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے بتلاۓ ہوۓ طریقوں پر چل کر حاصل کردہ مال ہی رزق ہے اور تمہارے لئے اسکا استعمال جائزوصحیح ہے۔

ولا تطغوا فیہ ۔ یہ بھی بڑے واضح الفاظ ہیں یعنی زیادتی نہ کرو اور اللہ کی حدود کو پھلانگنے کے لئےسرکشی نہ کرو۔ رزق کا حصول بھی جائز ذرائع سے ہو اور اسکا انفاق بھی جائز راستوں ہی میں ہو۔ دونوں میں سے ایک پہلو بھی اگر اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی کا نتیجہ ہوا تو یہ کھلی بغاوت ہے جسکے جواب میں اللہ تبارک وتعالیٰ انتباہ فرماتے ہیں کہ

فیحل علیکم غضبی۔ ایسے شخص پر میرا غصّہ حلال ہو جاۓ گا، یعنی اسکے بعد وہ مجھ سے معافی و رحم کی توقع نہ رکھے بلکہ عذاب کا سامنا کرنے کےلئے تیار ہو جاۓ۔

ومن یحلل علیہ غضبی فقد ھویٰ۔ جس پر میرا غصّہ اترا وہ تباہ ہوا۔ یعنی جس سے کائنات کا مالک اور بادشاہ ناراض ہو جاۓ اسے کہاں پناہ ملے گی؟ جب جاۓ پناہ نہیں تو پھر بادشاہ کو راضی رکھنا ہی بہتر ہے۔


رزق حلال کیا ہے؟


جب ہم رزق کے حلال اور حرام ہونے کی بات کرتے ہیں تو قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ رزق کیا ہے؟ مزید یہ کہ رزق کے حلال یا حرام ہونے کیلئےکن شرائط کا ہونا ضروری ہے؟

پس جان لینا چاہئےکہ رزق نہایت وسیع مفہوم کا لفظ ہے اور یہ انسانی زندگی گزارنے کے لئے جملہ ذرائع و وسائل کا احاطہ کئے ہوۓ ہے۔ چنانچہ کھانے پینے کی جملہ اشیا٫ ، تن ڈھانپنے اور زیب و زینت کے لئےلباس ، موسمی اثرات سے محفوظ رہنے کے لئے مکان ، سفر طے کرنے کے لئے سواری اور لین دین کے لئے مال و دولت، حتٰی کہ سانس لینے کے لئے تازہ ہوا بھی رزق ہی کی مد میں آتے ہیں۔ یہ تمام وسائل انسان کی فلاح و بہبود کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا گراں بہا انعام ہیں۔ اسکی وضاحت سورۃ الحج کی درج ذیل آیات سے بخوبی ہو جاتی ہے:


لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ - أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ

تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَن تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ – 22:64-65 الحج

ترجمہ: "اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہےاور اللہ وہی ہے بے پروا سب تعریفوں والا۔ تو نے نہ دیکھا؟ کہ اللہ نے بس میں دیا تمہارے جو کچھ ہے زمیں میں اور کشتی چلتی دریا میں اسکے حکم سے اور تھام رکھا ہے آسمان کو اس سے کہ گر پڑے زمین پر مگر اسکے حکم سے۔ بے شک اللہ اپنے بندوں پر شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔"

مقصد یہ ہوا کہ کا ئنات اور اسکے اندر موجود جملہ اشیا٫ اللہ تعالیٰ کی ہی ملکیت ہیں۔ لیکن وہ بے نیاز ذات ہے اسلئے اس نے زمین کے تمام وسائل کو انسان کی ضروریات اور استعمال کے لئے وقف کر دیا ہے۔ چنانچہ اخلاقی طور پر ضروری ہے کہ انعام کو بخشنے والے کی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاۓ۔جب اللہ نے زمین کے اندر موجود جملہ اشیا٫ انسان کے بس میں دے دی ہیں تو انسان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ ان اشیا٫ سے اللہ کی مرضی کے مطابق استفادہ کرے۔ خصوصاً جب اللہ تعالیٰ نے با قا عدہ طور پر یہ حکم دے دیا کہ اپنی زندگی کے جملہ معاملات میں میرے دۓ ہوۓ احکامات کو پیش نظر رکھو اور انہی کے مطابق اپنی زندگی بسر کرو۔ پس فرمانبردار بندہ وہی کہلاۓ گا جو اس حکم پر سر تا پا عمل کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - 2:63 البقرۃ

ترجمہ:"اور جب ہم نے لیا پختہ وعدہ تم سے اور لا کھڑا کیا تمہارے سروں پر طور پہاڑ اور کہا تم سے پکڑو جو ہم نے دیا تم کو زور سے اور یاد کرتے رہو جو اس میں ہے شاید تم کو ڈر ہو۔"


جب یہ بات واضح ہو گئی کہ کائنات کے اندر موجود جملہ وسائل انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسخر کر دۓ گئے ہیں اور ساتھ ہی یہ شرط لگا دی گئی ہےکہ ان سے استفادہ اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی و منشا٫ کے مطابق کیا جاۓ تو پھر اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ حلال و حرام کرنے کا اختیار بھی اللہ ہی کی ذات کے پاس ہے۔ اس سلسلے میں مختلف احکامات قرآن مجید کے اندر بکھرے پڑے ہیں۔ بعض اشیا٫ کے بارے میں واضح ہدایات موجود ہیں اور بعض معاملات کے بارے میں اساسی اصول بتلا دۓ گئے ہیں۔ بعض چیزوں کی حلت و حرمت کے احکام پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے دۓ ہیں جو ظاہر ہے اللہ کی مرضی کے مطابق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب قرآن مجید کے اندر جا بجا رسول کی اطاعت کے احکامات دۓ ہیں۔ کہیں رسول کی اطاعت نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے اور

کہیں اطاعت کرنے کی ترغیب ہے۔ کہیں اللہ کی محبت کو رسول کے ساتھ محبت سے مشروط کیا گیا ہے اور کہیں اطاعت رسول کو اللہ کی اطاعت قرار دیا گیا ہے۔ اور کہیں واضح طور پر فرما دیا کہ رسول کوئی حکم نہیں دیتا جب تک کہ اسے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کا حکم نہ دیا گیا ہو۔

چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ جس رزق سے اللہ اور اسکے رسول نے منع فرمایا ہے وہ رزق حرام ہے اور جسکی اجازت دی ہے یا حصول کا حکم دیا ہے وہ رزق حلال ہے۔


TO BE CONTINUED..



Click here to VIEW this book.

Click here to DOWNLOAD this book.

125 views0 comments

Recent Posts

See All

Comentários


© 2019 by Anayat Bukhari

bottom of page